پاکستان تحریکِ انصاف سن 2018ء میں اقتدار میں آئی اور اس نے اپنا پہلا سالانہ بجٹ گزشتہ برس 11 جون کو پیش کیا جس کی کارکردگی آج ہم سب کے سامنے ہے اور عوام الناس نے اگلے مالی سال کیلئے نئے سالانہ بجٹ سے نئی توقعات وابستہ کر لی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ اعدادوشمار کیا کہتے ہیں؟ گزشتہ مالی سال کے دوران کس شعبے کیلئے کیاکیا رقوم مختص کی گئی تھیں اور نئے مالی سال کیلئے تجاویز کیا ہیں؟ کیا حکومت ملک کے تمام شعبہ جات کی تعمیر و ترقی کیلئے سنجیدہ ہے اور کیا ہر شعبے کیلئے مختص کی جانے والی رقم مناسب اور مسائل کے حل کے لیے کافی ہے؟
گزشتہ مالی سال کا بجٹ
وفاقی وزیر حماد اظہر نے 11 جون کو بجٹ پیش کیا جس کا حجم 70.22 کھرب روپے رکھا گیا جس میں ترقیاتی کاموں کیلئے 1800 ارب جبکہ ٹیکس وصولیوں کا ہدف 550 ارب رکھا گیا، بجٹ کا خسارہ 3560 ارب روپے تھا۔
وزیرِ اعظم عمران خان کفایت شعاری کی حکمتِ عملی پر گامزن نظر آئے، اس لیے وفاقی وزراء کی تنخواہوں میں 10 فیصد کمی کا فیصلہ ہوا، 4 لاکھ سالانہ آمدن والوں پر ٹیکس لگانے کا فیصلہ کیا گیا۔ حماد اظہر نے کہا کہ ملک کا مجموعی قرض 31 ہزار ارب روپے ہے جبکہ سود پر کمرشل قرضے لیے گئے۔
بیرونی قرضوں کے حجم کو ضرورت سے زیادہ قرار دیتے ہوئے حماد اظہر نے کہا کہ جاری کھاتوں کا خسارہ 20 ارب ڈالر جبکہ بجلی کے نظام کا قرض 1200 ارب روپے ہے۔دوسری جانب تجارتی خسارہ 32 ارب ڈالر رہا۔انہوں نے پیپلز پارٹی اور ن لیگ کی ناقص مالی پالیسیوں پر تنقید بھی کی۔
سن 2019ء کی بجٹ تقریراور بجٹ تخمینہ
یہاں ہم حماد اظہر کی بجٹ تقریر کا ایک مختصر خلاصہ پیش کر رہے ہیں تاکہ بجٹ کی تفصیلات سے آگہی ہوسکے۔ وفاقی وزیرِ مملکت حماد اظہر نے وزیرِ اعظم کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان پر اعتماد کے باعث بیرونِ ملک سے ترسیلاتِ زر میں 2 ارب ڈالر کا اضافہ اور ماہانہ گردشی قرضے میں 12 ارب کمی آئی۔
سعودی عرب سمیت دوست ممالک سے پاکستان کو 9.2 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری حاصل ہوئی۔ آئی ایم ایف سے 6 ارب ڈالر کا معاہدہ ہوا۔ گزشتہ برس وفاقی بجٹ کا تخمینہ 7 ہزار 22 ارب روپے رکھا گیا۔ آمدنی کا تخمینہ 6 ہزار 717 ارب لگایا گیا۔
حکومت نے ٹیکس کے نظام میں تبدیلی کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ سابقہ حکومتوں نے بد ترین نتائج دئیے۔ ہم حقیقی آمدن پر ٹیکس لگائیں گے۔ معیشت کو دستاویزی شکل دی جائے گی۔ کارپوریٹ سیکٹر کا ٹیکس ریٹ کم رکھا جائے گا اور ٹیکس ریفنڈ کیلئے بانڈز جاری کیے جائیں گے۔
نان فائلرز پر 50 لاکھ سے زائد مالیت کی جائیداد کی خریداری پر پابندی ختم کی جائے گی۔ 6 لاکھ سے زائد سالانہ آمدنی پر 5 سے 35 فیصد ترقیاتی ٹیکس لگائیں گے۔ 18 کھرب ترقیاتی کاموں کیلئے مختص کیے گئے جن میں سے 950 ارب وفاقی منصوبوں کیلئے جبکہ باقی صوبائی منصوبوں کیلئے تھے۔
ترقیاتی بجٹ میں سے صحت اور پانی کیلئے 93 ارب مختص کیے گئے ، 950 ارب وفاقی ترقیاتی بجٹ کیلئے رکھے گئے۔ این ایچ اے کیلئے 156 ارب، پشاور کراچی موٹر وے سکھر سیکشن کیلئے 19 ارب، انسانی ترقی کیلئے 60 ارب جبکہ کراچی کے منصوبوں کیلئے 43.5 ارب رکھے گئے۔ کوئٹہ ڈویلپمنٹ پیکیج 10 اعشاریہ 2 ارب رکھا گیا۔
مختلف شعبہ جات کیلئے گزشتہ سال کا بجٹ اور تنخواہیں
دفاعی بجٹ 1150 ارب رکھا گیا۔ توانائی کیلئے 80 ارب رکھتے ہوئے 300 یونٹس سے کم کے صارفین کیلئے 200 ارب کی سبسڈی دی گئی۔ اعلیٰ تعلیم کیلئے 43 ارب روپے مختص کیے گئے۔
صحت کیلئے 93 ارب جبکہ زراعت کیلئے 280 ارب روپے رکھے گئے۔ غربت کے خاتمے کیلئے نئی وزارت قائم کی گئی۔ احساس پروگرام کے تحت وظائف میں 500 روپے کے اضافے اور 10 لاکھ افراد کیلئے راشن کارڈ اسکیم کا اعلان کیا گیا۔
حکومت نے گریڈ 16 تک ملازمین کی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کیا، 17 سے 20 گریڈ میں 5 فیصد اضافہ ہوا تاہم 21 سے 22 گریڈ تک کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ ریٹائرڈ ملازمین کی پنشن میں 10 فیصد اضافہ ہوا۔ معذور افراد کا وظیفہ 1000 روپے بڑھا دیا گیا۔ کم سے کم تنخواہ 17 ہزار 500 روپے کی گئی۔
گزشتہ بجٹ میں ٹیکسز کی تفصیل
بجٹ میں 1000 سی سی گاڑیوں پر ٹیکس میں 2 اعشاریہ 5 فیصد اضافہ ہوا، 2 ہزار سی سی پر 5 فیصد جبکہ اس سے زائد تمام گاڑیوں پر 7 اعشاریہ 5 فیصد اضافی ٹیکس رکھا گیا۔
جنرل سیلز ٹیکس میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ 10 فیصد ٹیکس دودھ اور اس سے بنی ہوئی مصنوعات پر عائد کیا گیا۔ موبائل فونز پر ٹیکس 3 فیصد کم ہوا۔ چینی پر سیلز ٹیکس 8 سے 17 فیصد کیا گیا۔چمڑے کی مصنوعات پر 17 فیصد سیلز ٹیکس کا اضافہ ہوا۔ کھانے پینے کی اشیاء پر سیلز ٹیکس 17 فیصد کی بجائے 7 فیصد کیا گیا۔
بجٹ 2020ء کیلئے تجاویز اور توقعات
وفاقی بجٹ 2020ء کل یعنی 12 جون کو پیش کیا جائے گا جس میں دفاعی اخراجات میں 12 فیصد اضافے کا امکان ہے۔ کورورنا کے باعث 25 فیصد اراکینِ اسمبلی ہی اجلاس میں شریک ہوں گے۔
کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے ملک بھر میں لاک ڈاؤن سے بے شمار افراد بے روزگار ہو گئے جسے مدِ نظر رکھتے ہوئے حکومت نے اضافی ٹیکسز نہ لگانے کا عندیہ تو ضرور دیا ہے تاہم بجٹ پیش ہونے کے بعد ہی اس پر کوئی رائے زنی کی جاسکتی ہے۔
عالمی میڈیا کے مطابق بجٹ میں 76 کھرب روپے کے اخراجات جبکہ 6.9 فیصد مالی خسارہ متوقع ہے۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو نے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5 اعشاریہ 5 کھرب رکھا تھا، تاہم اسے 2 بار کم کیا گیا۔
سب سے پہلے ٹیکس وصولیوں کا ہدف 5.2 کھرب اور پھر لاک ڈاؤن کو مدنظر رکھتے ہوئے 3.9 کھرب کیا گیا، تاہم یہ ہدف بھی پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔
ملک کے سب سے زیادہ نظر انداز شعبہ جات
تحریکِ انصاف سمیت کسی بھی سیاسی جماعت کے بجٹ کو اٹھا کر دیکھ لیجئے، آپ کو تعلیم کی اہمیت نظر آجائے گی۔ ملک بھر میں ترقیاتی اہداف کیلئے تو بہت اخراجات کیے جاتے ہیں اور وزیرِ اعظم عمران خان نے غریب عوام کیلئے احساس پروگرام کے تحت تو اربوں خرچ کیے، تاہم تعلیم کا شعبہ بہت حد تک نظر انداز کیا گیا۔
دیگر شعبہ جات جنہیں نظر انداز کیا جاتا ہے ان میں صحت اور روزگار شامل ہیں جبکہ کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے لگائے گئے لاک ڈاؤن کے دوران سب سے زیادہ یہی تین شعبہ جات متاثر ہوئے۔ تعلیمی ادارے مسلسل بند ہیں، ہسپتالوں میں کورونا وائرس کے مریضوں کیلئے جگہ نہیں اور لاک ڈاؤن کے باعث بے روزگار افراد کی بڑھتی ہوئی تعداد سوالیہ نشان بن چکی ہے۔
تجاویز
حکومت کو چاہئے کہ نظر انداز کیے گئے شعبہ جات پر سب سے زیادہ توجہ دے۔ لاک ڈاؤن کے باعث بے روزگار افراد کی بحالی اوّلین ترجیح ہونی چاہئے جس کے بعد صحت اور تعلیم کی باری آتی ہے جبکہ شعبہ جات کی یہ ترتیب ضروریاتِ زندگی کے اعتبار سے رکھی گئی ہے۔
غریب کے گھر کا چولہا جلے گا تو وہ صحت اور اس کے بعد تعلیم پر توجہ دے سکے گا، اس کے علاوہ زراعت، صنعت اور توانائی کے شعبہ جات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔