وزیراعظم پاکستان نے زراعت اور تعمیرات کے شعبے میں روزگاردینے کا عندیہ دیتے ہوئے تعمیراتی شعبے کیلئے پیکیج کا اعلان کیا ہے ، وزیراعظم کا کہنا ہے کہ زراعت اورتعمیرات کے شعبے میں لوگوں کو سب سے زیادہ روزگار ملتا ہے اورتعمیراتی سرگرمیاں جاری کرنے کا مقصد یہ ہے کہ یومیہ اجرت پر کام کرنے والوں کو روزگا ملتا رہے۔
پاکستان کی مجموعی آبادی کا 60 فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے جن کے لیے تعمیراتی شعبہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے جبکہ ملکی تعمیر و ترقی میں پاکستان اسٹیل کا بھی خصوصی کردار ہے ،اسٹیل کے اسی شعبے میں اتنی وسعت ہے کہ ملک کے لاکھوں بیروزگار نوجوان اس شعبے سے وابستہ ہوکر اپنا مستقبل سنوار سکتے ہیں۔
تعمیراتی صنعت کسی بھی ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے، تعمیرات کے ساتھ دیگر صنعتیں منسلک ہوتی ہیں،انجینئرز ،ڈپلومہ ہولڈرز، محنت کش، ہنر مند، ناتجربہ کار ورکرزاور دیگر افراد تعمیرات کے شعبے سے منسلک ہوکر اپنے لیے سامان زیست پیدا کرلیتے ہیں۔
اس لیئے دیکھا جائے تو تعمیراتی شعبے جس میں ہر قسم کے افراد کی کھپت ہوجاتی ہے تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں معطل ہونے کی وجہ سے تعمیراتی شعبے سے وابستہ ہزاروں افراد کے چولہے ٹھنڈے پڑ چکے ہیں۔ وزیراعظم کی جانب سے اعلان کردہ مراعاتی پیکیج سے معیشت کا پہیہ رواں ہونے کے ساتھ ساتھ ہزاروں لوگوں کو روزگار بھی میسر آئیگا۔
تاہم حکومت کی جانب سے اعلان کردہ پیکیج سے جہاں سرمایہ کاری کے امکانات پیدا ہوئے ہیں وہیں ہر قسم کا دھن مارکیٹ میں لانے پر پوچھ گچھ ختم کرنے کی پیشکش نے کئی سوالات کا جنم دیا ہے، ریاست کی جانب سے اس قسم کی پیشکش منفی رجحان پیدا کرے گی، ملک مشکلات کا شکار ہے اس میں کوئی دو رائے نہیں ہے تاہم صرف ایک شعبے کیلئے متنازعہ اقدامات سے مزید مسائل پیدا ہونگے کیونکہ حکومت کی جانب سے تعمیرات کے شعبے میں کالا دھن کھپانے کے الزامات کے تحت بلڈرز پر لاتعداد پابندیاں زیادہ پرانی بات نہیں ہے اس لئے یکدم ایک مخصوص شعبے کو ماورائے قانون متنازعہ پیشکش دینا مناسب عمل نہیں ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ تعمیرات کے علاوہ دیگر شعبوں کی ترقی کے لیے بھی بھرپور کوشش کی جائے تاکہ معیشت کو ہونیوالے نقصان کا ازالہ کیا جاسکے اور بیروزگار نوجوانوں کو کھپانے کا بھی مستقل انتظام کیا جاسکے۔
پیکیج کے نکات
1۔تعمیراتی شعبے کو باقاعدہ صنعت کا درجہ دینے کیلئے کنسٹرکشن انڈسٹری ڈیولپمنٹ اتھارٹی قائم کی جائے گی۔
2۔نیا پاکستان ہاؤسنگ میں منافع 10 فیصد سے کم ہونے پرفکسڈ ٹیکس میں 90 فیصد رعایت ہوگی ۔
3۔نئی تعمیرات پر ذرائع آمدن نہیں پوچھے جائینگے،پیکیج کا فائدہ 31 دسمبر تک شروع ہونے والی تعمیرات پر ہوگا۔
4۔تعمیراتی شعبے کو ابتدائی طور پر اس اسکیم کے تحت 30 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی۔
5۔اسٹیل اور سیمنٹ کے علاوہ تعمیراتی مواد ،خدمات پر سروسز ٹیکس معاف کیا جائے گا۔
6۔اسکیم کے تحت اگر کوئی اپنا مکان فروخت کرتا ہے تو کیپٹل گین ٹیکس وصول نہیں کیا جائے گا۔
7۔ تعمیراتی شعبے کے لیے ٹیکسوں میں 90 فیصد کمی کے علاوہ دیگر مراعات بھی دی گئی ہیں۔
8۔حکومتی پیکیج کے تحت تعمیراتی صنعت 14 اپریل کے بعد باضابطہ طور پر کام شروع کردے گی۔
9۔سرمایہ کار صرف اپنے منصوبوں پر ٹیکس کی مجموعی رقم کا محض 10 فیصد ادا کریں گے۔
10۔پنجاب اور خیبر پختونخوا ٹیکسز کو 2 فیصد پر لے آئے ہیں دیگر صوبوں سے ٹیکس مراعات کی سفارش کی گئی ہے۔
تعمیرات کے شعبے سے وابستہ ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے مراعاتی پیکیج سے تعمیرات کے شعبے میں مزید لوگ سرمایہ کاری کرینگے جس سے معیشت کوفائدہ ہوگا۔
حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے کی بحالی کا فیصلہ مستحسن اقدام قرار دیتے ہوئے تعمیراتی شعبے کا سرمایہ کاروں اور آباد کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ تعمیرات کا شعبہ ملک کی معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتا ہے، ان کا کہنا ہے کہ ایک پروجیکٹ سے درجنوں لوگوں کو روزگار ملتا ہے اور ٹیکسز کی مد میں حکومت کی آمدن میں بھی اضافہ ہوتا ہے لیکن سہولیات کی عدم فراہمی کی وجہ سے سرمایہ کار مارکیٹ میں پیسہ لگانے سے گریزاں ہیں تاہم حکومت کی جانب سے مراعاتی پیکیج کے بعد سرمایہ کار نئے منصوبوں میں سرمایہ کاری کرنے کیلئے تیار ہیں۔
تعمیراتی شعبے کو مراعات دینے کے فیصلے پر الیکٹرونکس ڈیلرز کا کہنا ہے کہ تعمیرات کے علاوہ دیگر شعبوں کو بھی مراعات دیکر حوصلہ افزائی کی جائے۔ الیکٹرونکس ڈیلرز کا کہنا ہے کہ دو ہفتوں سے لاک ڈاؤن کی وجہ سے کاروبار تباہ ہوچکا ہے، ملازمین کو تنخواہیں دینے کیلئے پیسے نہیں ہیں۔
سیمنٹ، سریا، ٹائلز اور بجلی کے آلات کا کاروبار کرنے والوں کا کہنا ہے کہ تعمیراتی شعبے کی بحالی سے منجمد کاروباری سرگرمیاں بحال ہونگی تاہم حکومت کو سیمنٹ اور سیریے کی صعنت کو بھی مراعات دینی چاہئیں کیونکہ لاک ڈاؤن کی وجہ سے سیمنٹ اور سریے کا کاروبار کرنیوالوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے تعمیراتی شعبے کے نام پر محض بلڈرز کو فائدہ پہنچایا ہے۔
درآمد صعنت سے وابستہ اہم کاروباری شخصیات کا کہنا ہے کہ کورونا کی وجہ سے کاروبار ٹھپ ہوچکا ہے، فیکٹریوں اور صنعتوں میں خام مال کی قلت پیدا ہوچکی ہے تو دوسری جانب تیار مال پورٹس پر پڑا پڑا خراب ہورہا ہے جبکہ برآمدات بھی تباہ ہوچکی ہیں ایسے میں صرف ایک شعبے کیلئے مراعاتی پیکیج زیادتی ہے، لاک ڈاؤن کی وجہ سے ہمارے پاس بینکوں کے قرض کی اقساط چکانے کے بھی پیسے نہیں ہیں۔ حکومت صنعتی شعبے کیلئے بھی ٹیکس چھوٹ کا اعلان کرے۔