کسی بھی ایک شہر سے دیگر شہروں یا ملکوں میں پھیلنے والی بیماری کو وباءکہا جاتا ہے۔زمین پرحضرت انسان کے ارتقاءکے بعد سے کئی وبائیں پھیل چکی ہیں۔جن میں طاعون،ہیضہ ،چیچک اور انفلوائنزا شامل ہیں۔یہ وہ بیماریاں ہیں جو سننے میں معمولی لگتی ہیں مگر انسانی تاریخ کی سب سے زیادہ سفاک اور قاتل بیماریاں ہیں۔ خاص طور پر چیچک سے دنیا کے 12ہزار سالہ وجود کے پوری تاریخ میں 30 کروڑ افراد کی موت واقع ہوئی جو دوسری عالمی جنگ کے مقابلے میں 3 گنا سے بھی زیادہ ہے۔
پہلی وبا: سن 165 عیسوی ۔۔اموات کی تعداد:50 لاکھ ۔۔وجہ: نامعلوم
سال 165ء میں پھیلنے والی وباءکو طاعون کے نام سے جانا جاتا ہے جوکہ ایک قدیم بیماری ہے۔ کیونکہ اس بیماری کی اصل وجہ آج تک معلوم نہیں ہوسکی۔اس وباءکو چیچک یا خسرہ بھی کہا جاتا ہے جس نے ایشیاء ، مصر ، یونان اور اٹلی کو متاثر کیا تھا۔ اس نامعلوم بیماری کو میسوپوٹیمیا سے واپس لوٹنے والے فوجی نادانستہ طور پرروم لائے جس کے نتیجے میں 50 لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے۔
دوسری وباء: سن 541ء سے سن 542ء۔۔ہلاکتوں کی تعداد: 2 کروڑ 50 لاکھ ۔۔وجہ: طاعون
سن 541ء میں پھیلنے والی وباء کے بارے میں خیال یہ تھا کہ شاید اس سے یورپ کی نصف آبادی ہلاک ہو جائے گی۔ طاعون سے بازنطینی سلطنت اور بحیرۂ روم کے بندرگاہی یا ساحلی شہر متاثر ہوئے جس نے دہشت پھیلاتے ہوئے 2کروڑ 50 لاکھ افراد کو ہلاک کردیا تھا۔ یہ وباءعام طور پر طاعون کا پہلا ریکارڈ شدہ واقعہ سمجھی جاتی ہے،جس نے دُنیا پر اَن مٹ نقوش چھوڑے۔ اس وباءسے مشرقی بحیرۂ روم کی ایک چوتھائی آبادی ہلاک ہوئی جبکہ قسطنطنیہ کے لئے یہ تباہ کن ثابت ہوا ۔ اندازے کے مطابق طاعون سے یومیہ 5000 افراد ہلاک ہوئے اور شہر کی 40 فیصد آبادی ہلاک ہوگئی۔
تیسری وباء: سن 1346 سے 1353ء۔سیاہ موت ۔اموات کی تعداد: 75 تا 200 ملین۔۔وجہ: طاعون
سن 1346 سے 1353 تک پھیلنے والی وباءسے یورپ ، افریقہ اور ایشیاء تباہ ہوگئے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وباءسے ہلاکتوں کی تعداد 7 کروڑ 50 لاکھ سے 20 کروڑ کے درمیان ہے۔اس وباءسے ایشیاءمیں طاعون کی ابتدا ہوئی۔یہ وباءچوہوں کے جسم پر رہنے والے پسووں کے ذریعے پھیلی جو تاجروں کے جہاز پر سوار تھے۔ اس وقت بندرگاہیں بڑے شہری مراکز کی حیثیت رکھتی تھیں جو چوہوں اور پسووں کی نشوونما کیلئے بہترین مرکز تھا ، اس طرح یہ جراثیم پروان چڑھے جس سے تین براعظم تباہ ہو گئے۔
چوتھی وباء: سن 1852ء سے 1860ء۔تھرڈ کولیریا۔ اموات کی تعداد: 10 لاکھ۔ وجہ: ہیضہ
انیسویں صدی میں ہیضے کی تیسری بڑی وبا پھیلی جو 1852 سے 1860ء تک جاری رہی، ہیضے کو 7 وبائی بیماریوں میں سے عام طور پر سب سے مہلک سمجھا جاتا ہے۔ پہلی اور دوسری وبائی بیماری کی طرح ، تیسری ہیضے کی وباءکا آغازبھی ہندوستان سے ہوا جو دریائے گنگا سے پھیلا تھا۔اس وباءنے ایشیا ، یورپ ، شمالی امریکہ اور افریقہ کے 10 لاکھ سے زیادہ لوگوں کی جان لی۔ برطانوی معالج جان سن نے لندن کے ایک غریب علاقے میں کام کرتے ہوئے ہیضے کے کیسوں کا سراغ لگایا اور آخر کار آلودہ پانی کو اس بیماری کی منتقلی کا ذریعہ ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ بدقسمتی سے اسی سال اس کی دریافت ہوئی اور (1854) برطانیہ کے لئے وبائی بیماری کا بدترین سال رہا جس میں 23ہزار افراد ہلاک ہوئے۔
پانچویں وباء: سن 1889ء سے 1890ء۔فلو کی وبا۔اموات کی تعداد: 10 لاکھ۔وجہ: انفلوئنزا
سن 1889سے1890 تک پھیلنے والے فلوکے وبائی مرض سے دس لاکھ افراد کی اموات کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔اس وباءکو “ایشیاٹک فلو” یا “روسی فلو” بھی کہا جاتا تھا۔ 1889 میں پہلے معاملات تین الگ الگ اور دور دراز مقامات وسطی ایشیاء(بخارا) ، شمال مغربی کینیڈا اور گرین لینڈ میں دیکھے گئے۔ اس دور میں آبادی میں اضافہ ہوا اور شہری علاقوں میں تیزی سے فلو کی وباءپھیلی ۔ 19ویں صدی میں اس وباءسے بہت کچھ سیکھا گیا تھا۔
سن 1910ء سے 1911ء۔فلیریا کا مرض۔اموات کی تعداد:80 لاکھ۔ وجہ: ہیضہ
سن1910میں پھیلنے والی ہیضے کی وباءہندوستان سے پھیلی ،جس نے عرب علاقوں ، شمالی افریقہ ، مشرقی یورپ اور روس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ہیضے کی وباءپھیلنے سے 8 لاکھ افرادہلاک ہوئے۔ سن 1910ء سے 1911ء میں پھیلنے والا وبائی مرض ہیضہ امریکہ میں آخری وبا پھیلانے کا ذریعہ بنا۔ امریکی محکمہ صحت کے حکام ماضی سے سیکھ چکے تھے کہ اس مرض سے کس طرح نمٹا جائے ، انہوں نے فوری طور پر متاثرہ افراد کو صحت مند افراد سے الگ کردیا ۔کامیاب حکمت عملی کے باعث اس وباءسے امریکہ میں صرف 11 اموات ہوئیں۔
چھٹی وباء: سن 1918ء سے 1920ء۔ فلو کی وباء۔ہلاکتوں کی تعداد: 2 سے 5 کروڑ۔وجہ: انفلوئنزا
سن 1918 ءسے 1920ء کے درمیان پوری دنیا میں انفلوئنزا خوفناک حد تک پھیل گیا جس نے دنیا کی ایک تہائی آبادی کو متاثر کیا اور 2 سے 5 کروڑ افراد کی زندگیوں کا خاتمہ کیا۔ 1918ء کی وبائی بیماری میں متاثرہ 5 کروڑ افراد میں سے شرح اموات کا تخمینہ 10فیصد سے 20فیصد لگایا گیا تھا ، صرف 25 ہفتوں میں ہی 2 کروڑ 50 لاکھ اموات ہوئیں۔ 1918 کے وبائی مرض انفلوئنزا کے پھیلنے کی وجہ بھی متاثرہ افراد ہی تھے۔ جہاں انفلوئنزا نے ہمیشہ صرف کم سن بچوں اور بزرگوں کو یا پہلے سے کمزور مریضوں کی جان لی تھی ،اب اس نے صحت مند اور نوجوانوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا تھا ۔
ساتویں وباء: سن 1956ء سے 1958ء۔ ایشین فلو۔اموات کی تعداد: 20 لاکھ۔۔وجہ: انفلوئنزا
سن 1956 ءمیں چین سے پھیلنے والا انفلوائنزا سن 1958ء تک جاری رہا۔ایشین فلو انفلوئنزا اے کی ذیلی قسم H2N2کی وبا تھا جو دو سال تک پھیلارہا۔ ایشین فلو چینی صوبے گوئیزہو سے سفر کرتا ہوا سنگاپور ، ہانگ کانگ اور امریکہ تک پھیل گیا۔ عالمی ادارۂ صحت کے مطابق ایشین فلو سے تقریبا 20لاکھ افراد ہلاک ہوئے جبکہ اندازے کے مطابق ہلاکتوں کا تخمینہ کچھ اور ہے۔دریں اثناءایشین فلو سے صرف امریکہ میں 69ہزار800افراد ہلاک ہوئے۔
آٹھویں وباء: سن 1968ء۔ہانگ کانگ فلو۔اموات کی تعداد: 10 لاکھ۔۔وجہ: انفلوئنزا
سن 1968ء میں 13 جولائی کو ہانگ کانگ میں اس وباءکا پہلا کیس رپورٹ ہوا۔جس نے سنگاپور ، ویت نام،فلپائن،ہندوستان،آسٹریلیا،یورپ اور امریکہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔اس وباءسے 10 لاکھ افراد ہلاک ہوئے جبکہ صرف ہانگ کانگ میں 5 لاکھ افراد اس وباءکا شکار ہوئے۔ 1968ء میں وبائی مرض سے شرح اموات ہانگ کانگ میں 15فیصد جبکہ دیگر ملکوں میں .5فیصدرہی۔
نویں وباء: سن 1800ء سے 1900ء۔جلدی وباء۔وجہ:چیچک
چیچک کی تاریخ بہت پرانی ہے۔یہ بیماری ممکنہ طور پر 10ہزارسال قبل مسیح دور میں انسانی آبادی میں شروع ہوئی۔ چیچک کا ابتدائی معتبر ثبوت مصری ممی میں ملتا ہے جو تقریبا 3000 سال قبل مرچکے تھے۔ 18 ویں صدی کے دوران اس بیماری سے ہر سال ایک اندازے کے مطابق 40 لاکھ یورپی افراد ہلاک ہوئے ، جن میں 5 حکمران بادشاہ بھی شامل تھے جبکہ چیچک بڑے پیمانے پر اندھے پن کاباعث بھی بنی۔20 ویں صدی کے دوران ، ایک تخمینہ لگایا گیا ہے کہ چیچک 30 سے 50 کروڑ اموات کا ذمہ دار تھا۔ 1950ء کے دوران دنیا میں ہر سال چیچک کے تقریبا 5 کروڑ واقعات پیش آئے۔عالمی ادارۂ صحت کے مطابق1967 میں 1 کروڑ 50 لاکھ افراد اس مرض میں مبتلا ہوئے جبکہ اس سال چیچک سے 20 لاکھ افراد کی اموات ہوئیں ۔ 19 اور 20 ویں صدی میں کامیاب ویکسی نیشن مہموں کے بعد ڈبلیو ایچ او نے دسمبر 1979 میں چیچک کے عالمی خاتمے کی تصدیق کی۔
دسویں وباء: سن 2019ء سے 20۔ کورونا وائرس۔ اموات کی تعداد:34 ہزار ۔۔وجہ:انفلوئنزا،نمونیہ
دسمبر2019کو چین سے پھیلنے والا کرونا وائرس پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے چکاہے۔عالمی ادارہ صحت نے اسے کووڈ19کا نام دیا ہے۔سب سے پہلے اس وائرس کی دریافت 1960ء کی دہائی میں ہوئی تھی جو سردی کے نزلے سے متاثر کچھ مریضوں میں خنزیر سے منتقل ہوئی تھی۔
اس وقت اس وائرس کو ہیومن (انسانی) کرونا وائرس ای 229 اور او سی 43 کا نام دیا گیا تھا، اس کے بعد اس وائرس کی دیگر قسمیں بھی دریافت ہوئی ہیں۔دنیا بھر میں کرونا وائرس کے مصدقہ متاثرین 7لاکھ 23 ہزار سے بڑھ چکے ہیں اور ہلاکتیں 33 ہزار سے زائد ہوگئی ہیں،جبکہ متاثرین کی تعداد میں اضافے اور مزید ہلاکتوں کا سلسلہ جاری ہے۔
اب تک بیماری سے صحت یاب ہونے والوں کی تعداد تقریبا 1 لاکھ 51 ہزار 793ہے۔دنیا میں ایک چوتھائی ممالک میں وائرس سے نمٹنے کے لیے لاک ڈاؤن نافذ ہوچکا ہے جس میں کئی حکومتوں نے تمام کاروبار بند اور صرف ضروری اشیاء کی دکانیں کھلی رکھنے کا حکم دیا ہے۔