ریاستہائے متحدہ امریکا کے صدرڈونلڈ ٹرمپ نے رواں ماہ کے دوران 24 اور 25 فروری کو بھارت کا دو روزہ دورہ کیا جس کے دوران دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کا ایک نیا رُخ ابھر کر سامنے آیا۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت آمد سے قبل ہندی میں ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ میں بھارت چند گھنٹوں میں پہنچنے والا ہوں جہاں میری بھارتی قیادت سے ملاقاتیں ہوں گی، جس سے تعلقات کی سطح کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
امریکا کا پاکستان اور بھارت کے لیے نظریہ
پاک امریکا تعلقات یا امریکا بھارت تعلقات کو سمجھنے کے لیے یہ سمجھنا نہایت ضروری ہے کہ امریکا ہزاروں کلومیٹر دور رہ کر پاکستان اور بھارت کے ساتھ چوہے بلی کا کھیل کیوں کھیل رہا ہے۔اس کا تعلقات کا نظریہ کیا ہے؟
چوہے بلی کے کھیل سے ہماری مراد یہ ہے کہ ایک طرف افغانستان میں امریکا نے جنگ چھیڑ رکھی ہے جس سے جان چھڑا کر وہ فرار ہونا چاہتا ہے جس کے لیے اسے پاکستان کی مدد درکار ہے جبکہ دوسری جانب بھارت ہے۔
بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی سمیت کوئی بھی بھارتی حکمران یہ نہیں چاہتا کہ امریکا افغانستان سے نکلے، کیونکہ اگر امریکا نکل گیا تو افغان طالبان کی جنگ کا رخ بھارت کی طرف مڑ سکتا ہے جو ایک خطرناک معاملہ ہے۔
اگرامریکا کی نظر سے دیکھا جائے تو افغانستان سے نکلنے کے لیے پاکستان اس کی ضرورت بن چکا ہے۔ یہ ایک ایسی ہڈی ہے جسے نہ نگلا جاسکتا ہے نہ اُگلا جاسکتا ہے جبکہ دوسری طرف بھارت کے تعلقات ہم سے بہتر ہیں۔
بھارت امریکا کے ایک اشارے پر افغانستان کی جنگ میں کودنے کے لیے تیار ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اندرونِ خانہ اپنے 20 ہزار سے 30 ہزار فوجی افغان جنگ صرف چند شرائط پر جھونکنے کے لیے تیار ہیں۔
اس کے باوجود امریکا پاکستان کے ساتھ تعلقات خراب نہیں کرسکتا۔ اس لیے امریکی صدر نے اُکسانے کے باوجود پاکستان کے خلاف کھل کر بیان بازی سے ہر ممکن گریز کیا۔
ٹرمپ کی بھارت میں تقریر اور اس کے 3 مطالب
بھارت میں کھڑے ہو کر امریکی صدر ٹرمپ نے ایک تقریر کی جس کا مطلب بین الاقوامی میڈیا، بھارتی میڈیا اور پاکستانی میڈیا نے الگ الگ لیا۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت میں کھڑے ہو کر کہا کہ پاکستان سے تعلقات بہت اچھے ہیں، ان میں ترقی ہو رہی ہے جبکہ امریکا اور بھارت دہشت گردوں کو روکنے اور ان سے لڑنے کیلئے پر عزم ہیں۔
بھارت میں کھڑے ہوکر صدر ٹرمپ نے کہا کہ جب سے میں صدر بنا ہوں، پاکستانی سرحد سے آپریٹ ہونے والی دہشت گرد تنظیموں اور عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائی کیلئے پاکستان کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔
ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ امریکا اور بھارت اسلامی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اکٹھے ہیں۔ ہم نے داعش کے خلاف کارروائی کی اور اس کی خلافت مکمل طور پر تباہ کردی۔
تقریر کے مزید نکات بھی غور طلب ہیں، تاہم اختصار کے پیش نظر یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر مکارانہ سفارتکاری کا منہ بولتا ثبوت تھی جس کا ہر ایک نے اپنی اپنی مرضی کا مطلب اخذ کر لیا۔
بین الاقوامی میڈیا نے امریکی صدر ٹرمپ کی تقریر کا وہی مطلب لیا جو لینا چاہئے تھا، تاہم پاکستان اور بھارت کے میڈیا نے اس سے اپنی اپنی مرضی کے مطلب بھی اخذ کیے۔ پاکستان نے ٹرمپ کی تعریف کی اور بھارتی میڈیا چلاتا رہا۔
پاکستانی حکومت نے یہ مؤقف اختیار کیا کہ صدر ٹرمپ نے بھارت میں کھڑے ہو کر ہم سے اچھے تعلقات کا اعتراف کیا جبکہ بھارتی میڈیا پاکستان کا نام لینے کی بھی مخالفت کرتا رہا۔
بھارتی مجمعے کا ردِ عمل
جب صدر ٹرمپ نے یہ کہا کہ پاکستان سے اچھے تعلقات ہیں تو ہندوتوا نظرئیے سے متاثر بھارتی مجمعے میں سناٹا چھا گیا۔ اتنی خاموشی ہوئی کہ سوئی گرنے کی آواز بھی سنی جاسکتی تھی۔
یہ صورتحال دیکھ کر ٹرمپ نے پاکستان کی بات کو زیادہ طول نہیں دیا اور بھارت کے ساتھ تعلقات کا راگ الاپنا شروع کردیا جسے سراہا بھی گیا۔
مذمت کی ضرورت
غور کیا جائے تو پاکستان کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب کی تعریف کی بجائے مذمت کرنی چاہئے تھی۔ انہوں نے اسلامی دہشت گردی کی بات کی اور کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اس کے خلاف ہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اسلاموفوبیا کو فروغ دینے کے لیے اسلامی دہشت گردی کی بات کی جس کی پاکستان کی طرف سے کسی نے مذمت نہیں کی۔ الٹا پاکستان کے ساتھ تعلقات کے اعتراف کو سراہا گیا۔
بھارت میں مسلم کش فسادات اور ٹرمپ کا کردار
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھارت میں جاری مسلم کش فسادات پر کوئی ردِ عمل نہیں دیا۔ انہوں نے کہا کہ میں اس بات کو بھارتی حکومت پر چھوڑتا ہوں جبکہ آج بھی ہم عالمی برادری سے چاہتے ہیں کہ ایسے واقعات کا نوٹس لے۔
اس تمام تر صورتحال میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے امریکا کے ساتھ تعلقات کی نوعیت ایسی نہیں جو بھارت کی ہے۔ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے دورۂ امریکا اور ان کی تقریر اس بات کا ثبوت ہے۔
خطے میں تھانیداری کا خواب
پاکستان اور بھارت سمیت جنوبی ایشیاء کے تمام ممالک یہ بات بخوبی جانتے ہیں کہ ہزاروں میل دور بیٹھے امریکا کا یہاں کیا کام ہے؟ نائن الیون کا واقعہ ایک تسلیم شدہ ڈرامہ ثابت ہوچکا ہے اس لیے افغانستان پر حملے کا بھی الگ مقصد تھا۔
امریکا خطے میں چین کی بڑھتی ہوئی اجارہ داری سے بری طرح خوفزدہ ہے جس کے لیے وہ وقتاً فوقتاً بھارت کو بھی سبز باغ دکھانے کا سلسلہ جاری رکھتا ہے کیونکہ اگر چین کے خلاف کوئی ملک کھڑا ہوسکتا ہے تو وہ بھارت ہے۔
موجودہ دورۂ بھارت کے دوران بھی امریکی صدر ٹرمپ نے کہا کہ خطے میں امن کے معاملے میں بھارت ایک بڑا کردار ادا کرسکتا ہے۔ خطے کے بہتر مستقبل کے لیے بھارت کو نمایاں قیادت کا فریضہ سرانجام دینا ہوگا۔
صدر ٹرمپ نے یہ بھی کہا کہ بھارت پورے خطے میں مسائل کے حل کے لیے مزید ذمہ داری لے۔ امریکا چاہتا ہے خطے میں تھانیداری کا خواب اگر افغانستان میں جنگ چھیڑ کر پورا نہ ہو سکا تو وہ بھارت کے ذریعے پورا کیا جائے۔
بھارت امریکا تعلقات