پاکستان سمیت دُنیا بھر میں آج مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جا رہا ہے جس کا مقصد بڑی تعداد میں معدوم ہونے والی زبانوں کو معدومی سے بچانا ہے۔
ہماری کائنات میں اربوں ستارے اور ان کے اردگرد لاتعداد سیارے گردش کرتے ہیں، تاہم بنی نوع انسان زمین کے علاوہ ایسے کسی سیارے سے واقف نہیں جہاں انسانوں کی طرح کسی اور مخلوق کا وجود ہو۔
زمین پر انسانوں کی مجموعی آبادی اِس وقت 7 ارب 76 کروڑ ہے جو ہر گزرتے دن کے ساتھ ہزاروں کے حساب سے بڑھ رہی ہے جبکہ یہ 7 ار ب سے زائد لوگ مجموعی طور پر 7000 زبانیں بولتے ہیں۔
آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں 7000 ہزار زبانیں بولنے والے یہ 7 ارب 76 کروڑ سے زائد لوگ آہستہ آہستہ اپنی ہی مادری زبان سے کیوں دور ہوتے جا رہے ہیں اور زبانیں بچانے کی ضرورت ہی کیوں پیش آئی؟
دن منانے کا فیصلہ
سن 1999ء کے اواخر میں اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کی انسانی ثقافتی میراث کے تحفظ کی جنرل کانفرنس ہوئی جس کے اعلامیے میں اعلان کیا گیا کہ 21 فروری کو مادری زبانوں کا عالمی دن منایا جائے۔
اگلے ہی سال یعنی 2000ء سے دنیا بھر میں اسی ادارے کے تحت تقریبات کا اہتمام جاری ہے۔ تقریبات میں سیمینارز، مذاکرے، مباحثے اور تقریر و تحریر کے ذریعے ابلاغ کے عوامل شامل ہیں۔
سب سے زیادہ بولی جانے والی زبانیں
دنیا میں بولی جانے والی 7000 زبانوں میں سے انگریزی سرفہرست ہے کیونکہ یہ 112 ممالک میں بولی اور سمجھی جاتی ہے جبکہ دنیا میں اس وقت کل 195 ممالک موجود ہیں۔
فرانسیسی یعنی فرنچ دنیا کی دوسری بری زبان ہے جو 60 ممالک میں جبکہ 57 ممالک میں عربی بولی اور سمجھی جاتی ہے۔ اس کے بعد ہسپانوی یعنی اسپینش کا نمبر آتا ہے جو 44 ممالک میں بولی جاتی ہے۔
ہسپانوی کے ساتھ جرمن زبان بھی 44 ہی ممالک میں بولی جاتی ہے اور اردو ان کے قریب قریب ہے۔ اردو 23، ہندی 20 اور پنجابی 8 ممالک میں بولی جاتی ہے جس کے بعد باقی زبانوں کی باری آجاتی ہے۔
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو پاکستان میں 70 سے زائد زبانیں بولی جاتی ہیں جن میں اردو، پنجابی، سندھی، بلوچی اور پشتو سرِ فہرست ہیں جن کے بعد سرائیکی کا نمبر آتا ہے۔
لہجوں کا فرق
زبان بولنے کا طریقہ اسی زبان کے نئے رنگ کی طرف لے جاتا ہے۔ پنجابی زبان کے 8 ضمنی اور 31 ذیلی لہجے ہیں جن میں ہندکو، گوجری، چکوالی اور پشاوری شامل ہیں۔ اس سے بڑی زبان اردو اور انگریزی کے لہجے بھی اس سے زیادہ ہیں۔
مادری زبانیں ناپیدکیوں ہو رہی ہیں؟
دنیا بھر میں ہر 2 ہفتے میں 1 زبان معدوم ہوجاتی ہے۔مادری زبانیں ناپید ہونے کے مختلف اسباب ہوسکتے ہیں، تاہم ان میں سب سے زیادہ اہمیت اس بات کو دی جاتی ہے کہ خود اس زبان کے بولنے والے اسے کتنی اہمیت دیتے ہیں۔
مثال کے طور پر پاکستان میں پنجاب کے لوگ زیادہ تر سرائیکی، پنجابی اور ہندکو زبانیں بولتے ہیں۔ ان میں سے کچھ لوگ اردو کو زیادہ اہم سمجھ کر اپنے بچوں کو بھی وہی سکھانا شروع کردیں تو باقی لوگ بھی اس کا اثر ضرور لیتے ہیں۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ اردو ہماری قومی زبان ہے جسے ہم دیگر صوبائی اور مادری زبانوں پر زیادہ فوقیت دیتے ہیں، تاہم ہر زبان کا اپناایک رتبہ اور مقام ہے جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
اردو کو زیادہ اہم سمجھنے والے والدین اپنے بچوں کو اپنی ہی مادری زبان بچپن سے سکھاتے ہی نہیں جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ایسے بچے اردو کو ہی اپنی مادری زبان سمجھ کر مقامی یا صوبائی زبان سے لاتعلق ہوجاتے ہیں۔
اگر لوگ اسی طرح بڑی تعداد میں زیادہ سے زیادہ اپنی مادری زبانوں کو چھوڑ کر اردو اور اس کے بعد انگریزی کو اپنانا شروع کردیں تو تمام زبانیں ختم ہو کر صرف ایک زبان باقی رہے گی اور وہ ہوگی انگریزی۔
یہ تو ہوئی سب سے بڑی وجہ، دوسری وجوہات الگ ہوسکتی ہیں جو زیادہ اہم نہیں سمجھی جاتیں، مثال کے طور پر سنسکرت ہندوستان کی انتہائی قدیم اور قابلِ قدر زبان سمجھی جاتی تھی لیکن رفتہ رفتہ اس پر برہمن قابض ہو گئے۔
وہ چاہتے تھے کہ ان کی زبان پر کسی اور ذات کے ہندو یا مسلمان قابض نہ ہوسکیں۔انہوں نے محدود سوچ کے تحت زبان کو محدود کرنا چاہا جبکہ سنسکرت ایک مشکل زبان تھی جو ہر کوئی بول اور سمجھ نہیں سکتا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ آج سنسکرت زبان مکمل طور پر مردہ تو نہیں ہوئی، لیکن عملی طور پر اس کا نفاذ بھارت میں کہیں نظر نہیں آتا۔ صرف گنے چنے محققین یہ زبان جانتے ہیں لیکن عام بول چال اور تحریر میں یہ زبان استعمال نہیں ہوتی۔
زبانیں بچانے کی ضرورت کیوں؟
یہ سوال ذہن میں ضرور پیدا ہوسکتا ہے کہ جب کوئی مادری زبان بولنے والا خود ہی یہ زبان چھوڑ دیتا ہے بلکہ کوئی زبان بولنے والے سارے ہی لوگ اس زبان کو چھوڑ دینا چاہتے ہیں تو انہیں بچانے کی کیا ضرورت ہے؟
سوال درست بھی ہے کیونکہ آج دنیا کا تصور وہ نہیں رہا جو آج سے 30 یا 40 سال پہلے ہوا کرتا تھا۔ دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے اور تمام زبانیں بولنے والے آہستہ آہستہ ایک دوسرے کے قریب آ رہے ہیں۔
اگر لوگ اپنی ہی مادری زبان چھوڑ دینا چاہیں تو انہیں اس سے روکنا کیا ان کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں؟ اس کا جواب یہ ہے کہ نہیں۔زبان صرف بولنے کا طریقہ نہیں بلکہ اس سے ایک الگ چیز ہے۔
مثال کے طور پر عربی مسلمانوں کے لیے سب سے مقدس زبان ہے لیکن عربی کے لیے دیگر تمام زبانوں کو ترک کرنا کوئی دانشمندانہ فیصلہ قرار نہیں دیا جاسکتا۔ زبان میں آپ کی ثقافت، طریقۂ زندگی اور روایات موجود ہوتی ہیں۔
دوسری مثال یہ ہے کہ ایک زبان سے دوسری زبان میں رائے کا اظہار کرنے کے لیے ترجمے کی ضرورت پڑتی ہے اور ترجمہ کرنے والوں کو خوب احساس ہوتا ہے کہ دوسری زبان پہلی زبان سے کتنی مختلف ہے۔
عرب کے لوگ جس قسم کی ثقافت رکھتے ہیں، ان کی زبان میں بھی اسی طرح کے الفاظ پائے جاتے ہیں۔ صرف تلوار کے لیے ذوالفقار اور سیف سمیت درجن بھر سے زائد الفاظ موجود ہیں جو انگریزی میں دستیاب ہی نہیں۔
عالمی یومِ مادری زبان کے موقعے پر ہمیں یہ احساس کرنا ہوگا کہ دنیا کی کوئی بھی زبان کسی دوسری زبان سے کمتر نہیں ہوتی اور مادری زبان کو بچانا اس لیے اہم ہے کیونکہ وہ آپ کو آپ کے آباؤ اجداد سے ملی جو ایک امانت ہے!