مالکم ایکس کی زندگی ہمیں کیا سبق دیتی ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

21 فروری عظیم افریقی نژاد امریکی مسلمان رہنما اور انسانی حقوق کے سرگرم کارکن الحاج ملک الشبز المعروف مالکم ایکس کے قتل کی 55 ویںبرسی کے طور پر منایاجاتا ہے۔ان کی زندگی اس کی مثال ہے کہ ہم اللہ کی مدد سےسرخرو ہوسکتے ہیں اور خودکو بہتر انسان اور مسلمان بنا سکتے ہیں۔

کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ مالکم ایکس کی سوانح عمری نے افریقی نژاد امریکیوںکو اسلام کی طرف راغب کرنے میں اہم کردار اداکیا ہے۔ امریکا میں یاقین انسٹی ٹیوٹ کے بانی شیخ عمر سلیمان کے مطابق لیجنڈ باکسر محمد علی نے کہا تھا کہ اگر میلکم نہ ہوتے تو نہ وہ مسلمان ہوتے اور نہ ہی امریکا میں اس طرح سے اسلام کا فروغ ممکن ہوپاتا۔

ان کی زندگی اور الفاظ بہت سارے لوگوں کے لیے حوصلہ افزا ہیں اور ان میں ایسے سبق موجود ہیں جس سے زندگی کو بہتر بنایاجاسکتاہے۔

اپنے آپ سے محبت کریں
جسمانی ساخت اور شکل پر فخر کرنے کے حوالے سے 22مئی 1962 کومالکم ایکس کا کہنا تھا کہ آپ کو اپنی جلد کے رنگ سے نفرت کرنا کس نے سکھایا؟ کس نے آپ کو اپنے بالوں کی ساخت سے نفرت کرنا سکھایا؟ کس نے آپ کو اپنی ناک کی ساخت اور اپنے ہونٹوں کی ساخت سے نفرت کرنا سکھایا؟کس نے آپ کو اپنے سر کے اوپر سے اپنے پاؤں کے تلووں تک اپنے آپ سے نفرت کرنا سکھایا؟۔

مالکم ایکس کاسیلف ورتھ ((Self Worth کے بارے میں 12 مارچ 1964 کونیویارک میں کہناتھا کہ “ہم دوسروں کو کے لیے خود کو قابل قبول جب تک نہیں بناسکتے جب تک ہم خود کو پہلے اپنے لیے قابل قبول ثابت نہ کرلیں”۔

مالکم ایکس نے نوجوان نسل کو خود اعتمادی پیدا کرنے اور مستقبل کی تیاری کے سلسلے میں تعلیم کی اہمیت جاننے کی ضرورت پرزور دیا تھا ، ان کا کہناتھا کہ اس سے ہمارے بچوں کی خود اعتمادی میں اضافہ ہوتا ہے۔ تعلیم مستقبل کے لئےہمارے لیے مددگارثابت ہوگی کیوں کہ کل ان لوگوں کا ہے جو آج اس کی تیاری کر رہے ہیں۔

مالکم کا اپنی سوانح عمری میں کہنا تھا کہ جاننے اور سیکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ وہ صرف کسی اسکول، یونیورسٹی اور تعلیمی ادارے میں ایڈمیشن لیں ، سب سے اچھا طریقہ یہ ہے کہ کتاب پڑھنے کی عادت پیدا کریں۔ان کا کہناتھا کہ میں اکثر ان نئی چیزوں کے بارےمیں سوچتا ہوں جو کتابیں پڑھنے سے میں نے سیکھی۔ان کا کہناتھا کہ میں نے قید کے دوران سیکھا کہ کتابیں پڑھنے سے میری زندگی بدل گئی ہے۔ جیسا کہ میں آج دیکھ رہا ہوںکتابیں پڑھنے سے میرے اندر ذہنی صلاحتیں بڑھانے کی خواہش جاگ اٹھی ہے۔

ایک انٹرویو میں جب مالکم سےپوچھا گیا کہ انہوں نے تعلیم کہاں سے حاصل کی تو انہوں نے جواب دیا کہ میں نے تعلیم کتابوں اور لائبریری سے حاصل کی۔ان کا کہناتھا کہ میں نئی چیزیں سیکھنے کے لیے بقیہ کی زندگی کتابیں پڑھتے ہوئے گزارنا چاہتاہوں۔

سچائی کی تلاش اور اس کا ساتھ دینا
مالکم ایکس کا سوانح عمری میں مزید کہناتھا کہ میں سچ کے ساتھ ہوں ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کون بول رہا ہے۔ میں انصاف کےساتھ ہوں ، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ کس کے حق میں یا کس کے خلاف ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں ایک انسان ہوں جو سب سے پہلے اور سب سے اہم ہے ، میں ہر اس انسان کے ساتھ ہوں جو انسانیت کو فائدہ پہنچانے کے لیے کام کرتا ہے۔

مالکم ایکس نے اپنی 39 سال کی مختصر زندگی میں کچھ ڈرامائی تبدیلیوں کا سامنا کیا۔ زندگی کے ابتدائی سالوں میں ایک ہونہار طالبعلم سے ڈراپ آؤٹ اورسڑکوں پر چھوٹی موٹی چیزیں فروخت کرنے لگے تھے۔ جیل میں گزارے گئے وقت نے مالکم کواپنی زندگی کا ازسر نو جائزہ لینے پر مجبور ہوئے، ابتدائی ایام میں انہوں نے نیشن آف اسلام میں شمولیت اختیار کی تھی جسےبالآخر مسترد کرتے ہوئے انہوں نےاپریل 1964 میں حج کی سعاد ت کے دوران کر قدامت پسند اسلام قبول کرنے کو ترجیح دی ۔اس حقیقت کا سامنا کرنے کے بعد کہ اسلامی تعلیمات کا نسل پرستی سے کوئی تعلق نہیں ، مالکم نے عوامی سطح پر نسل پرستانہ سوچ کی نفی کی جس کا وہ پرچار کرتے آئے تھے۔

مالکم ایکس کے مطابق پختہ یقین کے باوجودمیں ہمیشہ ہی ایک ایسا آدمی رہا ہوں جو حقائق کا سامنا کرنے کی کوشش کرتا ہے ، زندگی کی حقیقت کو نئے تجربے اور نئے علم کے طور پر قبول کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ میں نے ہمیشہ اپنے ذہن کو کھلا رکھا ہے جس سے حق اور سچ کی تلاش میں مدد ملتی ہے اور رویوں میں لچک پیدا ہوتی ہے۔

اتحاد کے لیے جدوجہد
نیشن آف اسلام سے الگ ہونے اور حج کرنے کے بعد ایک قدامت پسند مسلمان بنتے ہیں مالکم نے محسوس کیا انہیں انسانی حقوق کے فروغ کے لئے نسل سےبالاتر ہوکر دوسروں کے ساتھ مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے۔

ان کاکہناتھا کہ ماضی میں ایک دوسرے کو نظر انداز کرنے سے ہمارے درمیان اتحاد ناممکن سا ہوچکا ہے ، لہٰذا ہمیں روشن خیالی کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایک دوسرے کو سمجھنے کی ضرورت ہےجس سے افہام و تفہیم پیدا ہوتی ہے ، سمجھنے سے محبت پیدا ہوتی ہے اور محبت محبت کو جنم دیتی ہےجبکہ صبر اتحاد پیدا کرتا ہے۔ ایک بار جب ہم ایک دوسرے کوسمجھنا شروع کریں گے تو ہم ایک دوسرے کی مذمت کرنا چھوڑ دیں گےاور اتحاد قائم ہوجائے گا۔

مالکم کے مطابق مشترکہ اہداف کے حصول کے دوران اتحاد کی اہمیت ہم سب کے لئے ایک اہم سبق ہے جبکہ بعض اوقات وسروں کے ساتھ اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مل کر کام کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔

اس کالم کے ذریعہ میں نےیہ سبق اجاگر کرنے کی کوشش کی ہےجو ہم مالکم ایکس سے سیکھ سکتے ہیں۔ بنیادی طور پر مالکم ایکس کی زندگی ہمیں عزت ، عاجزی ، اور معافی کاسبق سکھاتی ہے۔تبدیلی تب ہی آسکتی ہے جب ہم اپنے آپ کو بدلیں۔

Related Posts