مقبوضہ جموں و کشمیر میں تاریخِ انسانی کے بد ترین کرفیو کا آج 165واں روز ہے گویا مسلسل 165روز سے مظلوم کشمیریوں کو ظلم اور صرف ظلم کا سامنا ہے جس پر اقوامِ متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل میں تیسری بار بحث ہوئی، سوال یہ ہے کہ اس تمام تر صورتحال میں نیا کیا ہے؟
گزشتہ 5 ماہ سے زائد عرصے سے جاری ظلم و ستم اور خون خرابے کی داستان میں ہر روز مظلوم کشمیری اپنے ہی خون میں نہا جاتے ہیں۔ ہر روز ظلم کی ایک نئی داستان رقم کی جاتی ہے جس کا ہر نیا باب نئی خونی کہانی کو جنم دیتا ہے، پھر بھی انتہائی معذرت کے ساتھ ہمارا سوال وہی ہے کہ اس میں نیا کیا ہے؟
وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے خاص طور پر ٹوئٹر پیغام کے ذریعے سلامتی کونسل اجلاس میں کشمیر پر بحث کا خیر مقدم کیا جبکہ گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور نے بھی اقوامِ متحدہ کے ادارے کے اس اقدام کی تعریف کرتے ہوئے اسے سفارتی سطح پر ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔
آج ہی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ تنازعہ ہے جو گزشتہ 70 سال سے اقوامِ متحدہ کے ادارے سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ مسئلۂ کشمیر کا حل اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق اور کشمیر کے عوام کی مرضی کے تحت ہونا ضروری ہے۔
غور کیا جائے تو وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جو بات کہی، وہ اپنے آپ میں ایک سوالیہ نشان ہے۔ اقوامِ متحدہ نے کشمیر کو عالمی سطح پر ایک متنازعہ علاقہ تسلیم کیا اور 70 سال سے ایجنڈے پر یہ مسئلہ موجود بھی ہے، تو سوال پھر وہی ہے کہ گزشتہ 70 سال سے یہ مسئلہ جوں کا توں کیوں ہے؟ اسے حل کیوں نہ کیا گیا؟
یہاں سے ایک بار پھر ہم اپنے پرانے سوال پر آتے ہیں۔ پرانا، تلخ اور سفاک سوال۔ اقوامِ متحدہ کا تیسرا اجلاس ایک ہی مسئلے پر اور سوال وہی ایک کہ بلی کے گلے میں گھنٹی کون باندھے گا؟ مظلوم کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دینے کے لیے عالمی برادری کب حرکت میں آئے گی؟ کب مسئلۂ کشمیر حل ہوگا؟ کشمیری کب آزادی کا سورج دیکھیں گے؟
گزشتہ 70 سال سے مقبوضہ جموں و کشمیر میں ظلم و ستم جاری ہے جس کا آج تک کوئی سنجیدہ نوٹس نہیں لیا گیا، نہ ہی بھارت کے خلاف کوئی سخت کارروائی کبھی عمل میں لائی گئی۔ پاکستان نے سفارتی محاذ پر ہمیشہ مظلوم کشمیریوں کا ساتھ دیا اور ہم آج بھی وہی کر رہے ہیں جبکہ ہمارا سوال پھر وہی ہے کہ نیا کیا ہے؟
گزشتہ برس نومبر کے آخری دنوں میں کشمیری رہنما یاسین ملک کی اہلیہ مشال ملک نے کہا کہ مقبوضہ کشمیر میں قتل و غارت جاری ہے۔ کشمیری ماؤں کا کوئی پرسانِ حال نہیں۔ بھارتی درندے مظلوموں کو قتل کرتے ہیں اور ان کی لاشیں ان کی ماؤں کے آگے پھینک دی جاتی ہیں۔ مائیں بیٹوں کی لاشیں اٹھا اٹھا کر ذہنی توازن کھو رہی ہیں۔
دیکھا جائے تو یہ اتنی تلخ بات ہے کہ اس کے آگے انسانیت کا خون کے آنسو رونا بھی ہیچ دکھائی دیتا ہے۔ ہم سفارتی سطح پر کشمیریوں کو حقِ خود ارادیت دلانے کی بات کرتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا نریندر مودی جیسے ہٹ دھرم اور حیوان صفت درندے کے سامنے سفارتی محاذ پر کی جانے والی کوششیں کارگر ثابت ہوسکتی ہیں؟
وادئ کشمیر کا حال بیان کرتے ہوئے یاسین ملک کی اہلیہ نے کہا کہ ظالم بھارتی فوجی ہر روز ایک کشمیری کو قتل کرتے ہیں اور اس پر جشن مناتے ہیں۔ جب کوئی کشمیری نوجوان شہید ہوتا ہے تو اس کی میت کو کاندھا دینے کے لیے علاقہ مکین جمع ہوتے ہیں اور کشمیری مائیں شہید بیٹوں کے جنازے میں سب سے آگے ہوتی ہیں۔
مقبوضہ جموں و کشمیر میں تاریخِ انسانی کا بد ترین کرفیو ہٹائے جانے کے دعوے تو بھارت نے بہت کیے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہاں انٹرنیٹ، ٹی وی ، مواصلات اور ٹرانسپورٹ پر بھی آج تک پابندی عائد ہے۔ مظلوم کشمیری آج بھی سوال کرتے ہیں کہ آزادی کب ملے گی؟ اور ہمارے پاس اس کا کوئی جواب نہیں۔ کیا آپ کے پاس کوئی جواب ہے؟