سابق صدرِ پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف نے سزائے موت کا فیصلہ سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا ہے، سپریم کورٹ میں انہوں نے درخواست دی ہے کہ خصوصی عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے۔
خصوصی عدالت نے سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کو سزائے موت سنائی تھی جس کے خلاف درخواست گزار کے وکیل سلمان صفدر نے سپریم کورٹ میں اپیل کی ہے۔
سپریم کورٹ میں دائر 65 صفحات پر مشتمل اپیل میں خصوصی عدالت کے ساتھ ساتھ وفاق کو بھی فریق بنایا گیا جبکہ اپیل میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ جسٹس وقار احمد سیٹھ کی سربراہی میں آئین کی خلاف ورزی کی گئی۔
خصوصی عدالت کی سزائے موت کو چیلنج کرتے ہوئے اپیل میں پرویز مشرف نے کہا کہ ٹرائل مکمل کرتے ہوئے آئین کی 6 بار خلاف ورزی ہوئی اور سہولت کاروں کو مقدمے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔
اپیل میں جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا کہ میں نے ملکی مفادات کے خلاف کوئی کام نہیں کیا، میں نے ملک سے باہر جانے کا فیصلہ حکومت سے اجازت لینے کے بعد کیا۔ بعد میں بیمار ہونا ایک فطری معاملہ تھا۔
جنرل (ر) پرویز مشرف نے کہا کہ میرے خلاف کیس میں جلد بازی کی گئی جبکہ کابینہ سے منظوری لیے بغیر کیس چلایا گیا۔ استغاثہ نے کیس دائر کرتے ہوئے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے۔
پرویز مشرف نے کہا کہ میں خصوصی عدالت سے جان بوجھ کر غیر حاضر نہیں ہوا، نہ ہی میں جیل توڑ کر بھاگا۔ مجھے غیر حاضری میں سزا سنا دی گئی جو قانون کے خلاف ہے۔
یاد رہے کہ اس سے قبل لاہور ہائیکورٹ کے فل بنچ نے سابق صدر جنرل(ر)پرویز مشرف کے خلاف سنگین غداری کیس کا فیصلہ سنانے والی خصوصی عدالت کی تشکیل کو غیر آئینی قرار دے دیا۔
عدالت نے تین روز قبل خصوصی عدالت کی تشکیل اور آرٹیکل 6 میں کی جانے والی ترمیم ،کریمنل لا ء اسپیشل کورٹ ترمیمی ایکٹ 1976 کی دفعہ 4 کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔
مزید پڑھیں: خصوصی عدالت کالعدم، پرویز مشرف کا ٹرائل غیر قانونی