مشرق وسطیٰ میں جاری ایک ہفتے پر مبنی شدیدتناؤکے بعدجس نے دنیا کو جنگ کے دہانے پر کھڑا کردیا تھا، امریکا اور ایران اپنے مؤقف میں نرمی دکھانے لگے، شاید دونوں فریقین کو احساس ہوگیا ہے کہ جنگ نہ صرف خطے بلکہ پوری دنیا کے لئے تباہ کن ہوگی۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فی الحال ایران کے خلاف مزید کوئی کارروائی نہ کرنے کا عندیہ دیتے ہوئے کہا ہے ایران پسپائی اختیارکررہا ہے جو کہ دنیا کیلئے اچھی بات ہے، ایران نے عراق میں امریکی اڈوں پر کئی بیلسٹک میزائل داغے لیکن کسی جانی نقصان کی اطلاع نہیں ملی، اطلاعات سامنے آئی ہیں امریکی حکام حملے سے قبل از وقت آگاہ تھےجس کی وجہ سے انہوں نے حفاظتی اقدامات کرلیے تھے ، ایرانی کارروائی کی بڑی وجہ ان پر اندرونی دباؤ تھا ۔
دونوں ممالک کے درمیان دشمنی برقرار ہے ، ایران نے جنرل قاسم سلیمانی کے قتل کا بدلہ لینے کا عزم ظاہر کیا ہے ، تاہم دونوں ممالک کے حکام کے حالیہ بیانات دیکھیں تو معاملہ استحکام کی جانب بڑھتا ہوا نظر آتاہے ۔ یہ خطہ اب مزید کسی نہ ختم ہونے والی جنگ کا متحمل نہیں ہوسکتااور معاملے کو سفارتی سطح پر حل کرنے کی ضرورت ہے ، دونوں فریقین کی جانب سے دکھائے جانے والے تحمل کے باوجود صورتحال کبھی بھی قابو سے باہر جاسکتی ہے۔
موجودہ صورتحال کا ذمہ امریکی صدر ٹرمپ کو ٹہرایاجاسکتا ہے کیوں کہ انہوں نے ایرانیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کے بجائے تعصب برتنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ امریکی میڈیا کے تمام تر توجہ اب ٹرمپ کے مواخذے کے بجائے ایران امریکا بحران پر مرکوز ہے ، ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ ختم کرتے ہوئے ایران پر مزید پابندیاں عائد کر دیں ہیں اور اپنے مخالفین پر ایران کو اربوں ڈالر جاری کرنے الزام عائد کیا جس سے ایران ان حملوں کے قابل ہوا۔
ایران نے بھی صورتحال پر ملے جلے رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکی اڈوں پر میزائل حملوں کا مقصد قتل کرنا نہیں تھا بلکہ پیغام بھیجنا تھا۔ ایرانی صدرحسن روحانی نے ٹرمپ کو خطے میں کسی بھی قسم کے مداخلت پرخطرناک ردعمل سے خبردار کیا ہے۔خطے میں متعدد پراکسی جنگیں لڑنے والے انتہائی طاقت ور اور قابل فوجی فوجی رہنما کی موت واقعی ایرانی حکومت کے لئے کسی دھچکے سے کم نہیں تھی۔
ایران کا کہنا ہے کہ امریکا کو خطے کے حوالے سے کوئی معلومات نہیں ہے اور اسے اپنی غلطی کا احساس کرناچاہیے، ایران خطے میں امریکی مداخلت کاخاتمہ چاہتا ہے لیکن امریکا عراق سے فوجیں نکالنے کے موڈ میں نظر نہیں آتا جو خطے کی پراکسی جنگوں کا میدان جنگ بن رہا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ نئی پابندیوں کاایرانی معیشت پر تباہ کن اثر پڑے گا اور جوہری معاہدے کو برقرار رہنا چاہیے، ہوسکتا ہے دونوں ممالک کے درمیان براہ راست ڈپلومیسی کا خاتمہ ہوچکا ہو، لیکن یہ ضروری ہے کہ دونوں فریقوں نے تمام تنازعات سے بچنے کے لئے بے حد تحمل کا مظاہرہ کیا۔