کراچی کے عوام ان دنوں ایک سنگین بحران کا سامنا کر رہے ہیں جہاں گھریلو صارفین کے لیے مخصوص قدرتی گیس ہوٹلوں، ریسٹورینٹس اور چائے خانوں کو فروخت کی جا رہی ہے۔
اس غیرقانونی تقسیم کے پیچھے سوئی سدرن گیس کمپنی کے کرپٹ افسران اور اہلکاروں کا مبینہ کردار سامنے آیا ہے جو بھاری رشوت کے عوض شہریوں کا حق چھین کر تجارتی مقاصد کے لیے فروخت کر رہے ہیں۔
شہریوں کو سارا دن اور رات بھر گیس کی عدم دستیابی کا سامنا ہے جس کی وجہ سے لوگ مہنگے داموں ایل پی جی سلنڈر خریدنے پر مجبور ہیں۔
حیران کن طور پر، گھروں میں گیس نہ ہونے کے باوجود ان صارفین کو باقاعدگی سے بھاری بل بھیجے جا رہے ہیں، جو نہ صرف سراسر ناانصافی ہے بلکہ ایک مجرمانہ معاشی استحصال بھی ہے۔
ذرائع کے مطابق ایس ایس جی سی کے بعض ملازمین کے الیکٹرک کے انداز پر عمل کرتے ہوئے ہوٹلوں اور چائے خانوں کو گھریلو کنکشن سے غیرقانونی طور پر گیس کی فراہمی کر رہے ہیں جن کے عوض لاکھوں روپے رشوت وصول کی جا رہی ہے۔
ان خفیہ اور مبینہ “گیس کنڈوں” کی موجودگی کے سبب رہائشی علاقوں میں گیس کا شدید بحران پیدا ہو گیا ہے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ انہیں صبح ناشتے سے لے کر رات کے کھانے تک گیس دستیاب نہیں ہوتی جبکہ ہوٹلوں اور ریستورانوں میں گیس کی فراہمی مسلسل جاری رہتی ہے۔
کئی علاقوں میں شہریوں نے شکایت کی ہے کہ ہوٹلوں میں ایس ایس جی سی کے اہلکار خود آکر گیس لائنیں جوڑتے ہیں اور مہینے کے آغاز میں رقم وصول کرکے چلے جاتے ہیں۔
یہ معاملہ صرف گیس کی فراہمی تک محدود نہیں بلکہ اس کا اثر براہ راست عوام کی جیبوں پر پڑ رہا ہے۔
متوسط اور غریب طبقہ سلنڈر بھروا کر مہنگا کھانا بنانے پر مجبور ہے جبکہ دوسری طرف ایس ایس جی سی کے کرپٹ اہلکار کروڑوں روپے کے ناجائز فائدے حاصل کر رہے ہیں۔
مختلف شہری، سماجی تنظیمیں اور قانونی ماہرین نے اس سنگین صورتحال پر چیف جسٹس آف پاکستان، ڈی جی نیب، ایف آئی اے، وفاقی وزیر پیٹرولیم، اوگراسے فوری نوٹس لینے کی اپیل کی ہے۔
شہریوں نے مطالبہ کیا ہے کہ ایس ایس جی سی کے ان تمام افسران و اہلکاروں کے اثاثے اور بینک ٹرانزیکشنز کا تفصیلی فرانزک آڈٹ کرایا جائے تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کس کس نے عوام کا حصہ بیچ کر اپنی جیبیں بھریں۔
ماہرین کے مطابق اگر ایس ایس جی سی کے ملازمین کی طرز زندگی، جائیدادیں، اور بچوں کی تعلیم کے اخراجات کا جائزہ لیا جائے تو کرپشن کی تہوں تک پہنچنا مشکل نہیں۔
ایس ایس جی سی کی اعلیٰ انتظامیہ کی خاموشی اور مسلسل نظر انداز کیے جانے والے عوامی مسائل نے شہریوں میں شدید غم و غصے کو جنم دیا ہے اور اگر اس کا نوٹس نہ لیا گیا تو جلد ہی عوامی احتجاج کی صورت اختیار کر سکتا ہے۔