2025 کے اوائل میں پاک بھارت کے درمیان اچانک ابھرنے والی شدید عسکری کشیدگی نہ صرف خطے میں ایک نئی جنگ کے خطرے کا پیش خیمہ بنی بلکہ اس نے عالمی اسلحہ منڈی کی اصل نوعیت، اس کے کرداروں اور سپرپاورز کے اصل مفادات کو بھی بے نقاب کیا۔
چار دن تک جاری رہنے والے میزائل، ڈرون حملے، فضائی جھڑپیں آخرکار ایک غیر متوقع سیز فائر پر ختم ہوئیں۔ مگر یہ سیز فائر کیسے ہوا؟ اس کے پیچھے اصل محرکات کیا تھے؟ اور عالمی اسلحہ ساز کمپنیاں اور ممالک کس حد تک اس کھیل میں شامل تھے؟
عالمی اسلحہ مارکیٹ میں پاکستان اور بھارت کی پوزیشن:
پاکستان کو ہتھیار فراہم کرنے والے اہم ممالک:
چین: پاکستان کا سب سے بڑا دفاعی پارٹنرجو JF-17 تھنڈر، ڈرونز، میزائل سسٹمز، اور جدید نگرانی کے آلات فراہم کرتا ہے۔
ترکی: حالیہ برسوں میں ترکی کے ساتھ ملٹری ڈرونز، بکتر بند گاڑیاں، اور نیوی کے لیے ٹیکنالوجی میں اشتراک بڑھا ہے۔
روس: اگرچہ محدود لیکن پاکستان نے ہیلی کاپٹرز اور کچھ میزائل ٹیکنالوجی کے لیے روس سے بھی خریداری کی ہے۔
بھارت کو اسلحہ فراہم کرنے والے بڑے ممالک:
فرانس: رافیل جنگی طیارے، سکورپین آبدوزیں اور دیگر فضائی ٹیکنالوجیز بھارت کو فروخت کی گئیں۔
روس: بھارت کے میزائل سسٹمز (جیسے براہموس)، S-400 دفاعی نظام اور فضائی آلات کا بڑا ذریعہ۔
امریکا: C-17 طیارے، Apache ہیلی کاپٹر، ہارپون میزائل، اور خفیہ مواصلاتی نظام۔
اسرائیل: اسپائک میزائل، ہیرون ڈرون، اور ریڈار سسٹمز۔
حالیہ جنگ: ایک بالواسطہ چین امریکا مقابلہ؟
ماہرین اور تجزیہ کاروں کے مطابق یہ تاثر اب تیزی سے تقویت پا رہا ہے کہ 2025 کی جنگ درحقیقت بھارت اور پاکستان کے درمیان براہِ راست تصادم سے زیادہ چین اور امریکا کے درمیان بالواسطہ اسلحہ جاتی ٹکراؤ تھا۔
جب بھارت نے پاکستانی حدود میں کئی میزائل حملے کیے اور پاکستان نے جواباً نہ صرف بھرپور جوابی کارروائی کی بلکہ بھارت کے کئی ایئربیسز کو نشانہ بنایا، تو دنیا نے دیکھا کہ فرانس کا فخریہ رافیل طیارہ ان حملوں کو روکنے میں ناکام رہا۔
رافیل کی ناکامی: چین کے لیے کامیابی؟
فرانس کی جانب سے بھارت کو 36 رافیل طیارے دیے گئے، جن پر اربوں ڈالر خرچ ہوئے۔ لیکن جب پاکستان نے حملہ کیا تو بھارتی ایئرڈیفنس نظام مکمل غیر فعال نظر آیا۔
پاکستان کے چین ساختہ ڈرونز اور میزائلوں نے رافیلز کو چکما دے کر نہ صرف اپنے اہداف کو کامیابی سے نشانہ بنایا، بلکہ بھارتی فضائیہ کے اعتماد کو بھی شدید دھچکا پہنچایا۔
اس کا فائدہ چین کو براہ راست ہوا:
چینی اسلحہ، خاص طور پر ڈرون ٹیکنالوجی کی مانگ میں اضافہ متوقع ہے۔
عرب، افریقی اور ایشیائی ممالک اب امریکی یا فرانسیسی سسٹمز کی بجائے چینی دفاعی نظام میں دلچسپی دکھا سکتے ہیں۔
رافیل کی عالمی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے، خاص طور پر اسٹریٹیجک دفاعی معاہدوں میں۔
امریکا کی سیز فائر میں مداخلت: مفادات کا تحفظ یا عالمی امن؟
سیز فائر کے فوراً بعد امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ یہ “امریکہ کی کامیاب ثالثی” کا نتیجہ ہے۔ پاکستانی قیادت نے اس کا خیرمقدم کیا، مگر بھارت نے اسے نظرانداز کیا۔
سوال یہ ہے: امریکہ نے مداخلت کیوں کی؟
ممکنہ وجوہات:
1۔مارکیٹ کا تحفظ:
اگر پاکستان نے رافیل کے بعد امریکی اسلحہ کو بھی ناکام بنا دیا، تو عالمی مارکیٹ میں امریکی اسلحے کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچتا، اور امریکہ کو کھربوں ڈالر کے آرڈرز سے ہاتھ دھونا پڑ سکتا تھا۔
2۔پریشر سے بچاؤ:
امریکی ساختہ اسلحہ اگر ایک غیر نیٹو اتحادی کے ہاتھوں نیچا دکھاتا، تو یورپی اور ایشیائی اتحادیوں کا اعتماد متزلزل ہو جاتا۔
3۔خطے میں کنٹرول:
امریکا یہ نہیں چاہتا تھا کہ چین کو جنوبی ایشیا میں سیاسی یا فوجی سطح پر برتری حاصل ہو، اس لیے سیز فائر کے ذریعے جنگی کیفیت کو روکنا ضروری تھا۔
سیز فائر کے بعد کا منظرنامہ:
بھارت کو اندرونی اور بیرونی دباؤ کا سامنا ہے، خاص طور پر اپوزیشن اور عالمی میڈیا کی طرف سے۔
پاکستان نے اپنی پوزیشن ایک ذمہ دار جوہری طاقت کے طور پر مستحکم کی ہے، جو سفارت کاری کو فوجی طاقت پر ترجیح دیتی ہے۔
چین خاموشی سے سفارتی کامیابی حاصل کر چکا ہے، اور اب عالمی اسلحہ مارکیٹ میں امریکہ اور فرانس کے مدِمقابل کھڑا ہو چکا ہے۔
نتیجہ:
2025 کی پاک بھارت کشیدگی ایک نئی عالمی حقیقت کو آشکار کر گئی، اسلحہ صرف دفاع کا نہیں بلکہ معیشت، سیاست اور عالمی طاقت کا ہتھیار بھی ہے۔
چین اور امریکا کا بالواسطہ تصادم اب صرف بحیرہ جنوبی چین تک محدود نہیں رہا، بلکہ جنوبی ایشیا میں بھی اس کے اثرات نمایاں ہیں۔
جہاں ایک طرف پاکستان نے عسکری اور سفارتی کامیابی حاصل کی، وہیں بھارت کے لیے یہ کشیدگی ایک یاددہانی ہے کہ مہنگے ہتھیار اور فوجی طاقت ہمیشہ کامیابی کی ضمانت نہیں۔