ہمارے ہاں سیاست میں دلچسپی تو سب کو ہے مگر بس شخصیت پرستی کی حد تک۔ اگر آپ غور کیجئے تو ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء، محترمہ بینظیر بھٹو، نواز شریف اور عمران خان سب کے سب وہ سیاسی بت ہیں جن کی پوجا پاٹ ہی ہوتی رہی ہے۔
مختلف جماعتوں کے سیاسی کارکنوں کے بیچ جو مکالمہ رہا ہے وہ بھی نظریاتی یا ملکی حالات کی بہتری سے متعلق نہیں بلکہ ایک دوسرے کے بت کی توہین کیلئے رہا ہے۔ یہ معاملہ اس حوالے سے مزید سنگین ہوجاتا ہے کہ بین الاقوامی سیاست سے تو ہمارے لوگ تقریباً لاتعلق رہتے ہیں۔
ان کا خیال ہے کہ پاکستان کی سرحدوں سے باہر ہونے والی سیاست کا پاکستان سے کوئی لینا دینا نہیں ہوتا۔ یہ سوچتے ہیں، روس اور امریکہ کے مابین یا ایران و سعودی عرب کے بیچ کشمکش یا مصالحت سے ہمارا کیا تعلق؟ انہیں ادراک نہیں کہ جس طرح فرد افراد سے لاتعلق نہیں رہ سکتا اسی طرح کوئی ملک بھی دوسرے ممالک سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔ جس طرح محلے کے دو بااثر گھرانوں کے بیچ کھڑا ہونے والا تنازعہ پورے محلے کے ماحول پر اثر انداز ہوتا ہے، اسی طرح دو اہم ممالک کے مابین کوئی بھی نئی کشمکش پوری دنیا پر اثر انداز ہوتی ہے۔ فرق بس یہ ہوتا ہے کہ جغرافیائی، سیاسی یا معاشی لحاظ سے کونسا ملک ان ممالک کے زیادہ قریب یا دور ہے۔ جتنا کوئی ملک قریب ہوگا اتنا ہی زیادہ متاثر ہوگا۔مثلاً ایران روس کیلئے جغرافیائی نسبت سے اہم ہے جبکہ چین کے لئے معاشی لحاظ سے۔
ہمیں اصطلاحات زہر لگتی ہیں سو انہیں برتنے سے گریز ہی کرتے ہیں۔ یہ اکیڈمک گفتگو کے لئے تو مفید ہوتی ہیں مگر عام آدمی کے لئے بات ناقابل فہم بنا دیتی ہیں۔ سو بین الاقوامی سیاست کا شعور رکھنے والوں کے لئے محض اشارتاً کہتے چلیں کہ خالص سیاسی اصطلاح میں ایران روس کے لئے جیوپولیٹکل جبکہ چین کیلئے جیو اکنامک پہلو سے اہم ہے۔ یہ دونوں ہی ممالک یہ افورڈ نہیں کرسکتے کہ ایران کو کوئی خطرہ لاحق ہو۔ ایسی کوئی سنجیدہ صورتحال پیدا ہوئی تو یہ دونوں ہی ممالک پوری قوت کے ساتھ ایران کا ساتھ دیں گے۔ ایران کی روس اور چین کے لئے اس اہمیت کے پیش نظر ہی یہ امریکہ کے لئے بھی کوئی آسان ہدف نہیں۔ کیونکہ امریکہ جانتا ہے کہ ایران کے ساتھ کوئی بھی بڑی چھیڑ چھاڑ روس اور چین کے ساتھ ہی چھیڑ چھاڑ ثابت ہوگی۔ اور اس کے نتائج خطرناک ہوں گے۔
روس اور چین تو چلئے ایران سے بڑے مفادات جڑے ہیں۔ ہمارا اس طرح کا کوئی مفاد نہیں لیکن ایک اور حوالے سے ہم بھی افورڈ نہیں کرسکتے کہ وہ جنگ کا شکار ہو۔ اور وہ وجہ یہ ہے کہ ہمارا تو یہ ڈائریکٹ پڑوسی ہے۔ اور جنگیں سب سے زیادہ پڑوسی کو متاثر کرتی ہیں۔ دو افغان جنگوں سے کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہونا چاہئے کہ ان کا معاشی اثر ہم پر نہیں پڑا تھا لھٰذا ایران کا بھی نہیں پڑ سکتا۔ دونوں افغان جنگوں میں ہماری معیشت کو امریکہ نے سپورٹ فراہم کر رکھی تھی، اسی لئے ہم معاشی لحاظ سے ان جنگوں سے متاثر نہ ہوئے تھے۔ خود ہی اندازہ لگا لیجئے کہ جب ہم نے بھی ایران سے لڑی جانی والی جنگ سے متاثر ہونا ہے تو ہماری حکومت لاتعلق کیسے رہ سکتی ہے؟ بات یہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ ایسی کسی ممکنہ جنگ کے اثرات صرف ہم پر ہی نہیں بلکہ دنیا کے ہر اس ملک پر پڑنے ہیں جو تیل استعمال کرتا ہے۔ کیونکہ تیل کی بڑی پیداوار والے ملک کا جنگ کی لپیٹ میں آنا تیل کی قیمتوں کو آسمان پر پہنچا دے گا۔ تیل اور گیس ایسی اشیاء ہیں جن سے دنیا کے ہر ملک کی معیشت جڑی ہوتی ہے۔ روس نے یورپین ممالک کیلئے صرف گیس کی سپلائی بند کرکے ان کی معیشتوں کا جنازہ نکالا کہ نہیں؟
آپ صرف یوکرین کی جنگ کا ہم پر ایک ڈائریکٹ عسکری اثر دیکھئے۔ ہماری ایئرفورس بھی ان ممالک میں شامل ہے جو ایئر ری فیولرز استعمال کرتی ہے، یعنی وہ طیارے جو لڑاکا طیاروں کو دوران پرواز تیل فراہم کرتے ہیں۔ ہماری ایئرفورس جو ایئرٹینکرز استعمال کر رہی ہے یہ یوکرین کے ہیں۔ طیارے چھوٹے ہوں یا بڑے انہیں سپیئرپارٹس مسلسل درکار ہوتے ہیں جبکہ ایک مخصوص مدت کے بعد یہ سروس کیلئے متعلقہ ملک بھی پہنچانے پڑتے ہیں۔ یوکرین پر روسی حملے سے صرف ایک ماہ قبل ہمارے ایئرٹینکر سروس کی غرض سے یوکرین میں ہی تھے۔ اگر روس ایک ماہ قبل حملہ کردیتا تو ہم اپنے ٹینکرز سے محروم ہو چکے ہوتے۔ لیکن یہ چیلنج تو بہر حال اب بھی برقرار ہے کہ یوکرین کی اتنی بڑی تباہی کے بعد وہ اب مستقبل میں کب اس قابل ہوتا ہے کہ ان ٹینکرز کی سروس یا سپیئرپارٹس فراہم کرسکے۔ کوئی شک نہیں پاکستان ایئرفورس کوئی متبادل حل ڈھونڈ چکی ہوگی۔ مگر سمجھنے والی بات یہ ہے کہ ہم سے بہت دور لڑی جانے والی اس جنگ کے ہم پر براہ راست اثرات پڑے کہ نہیں؟
وہ تو خدا کا شکر ہے کہ ہم گندم کی پیداوار میں خود کفیل ہیں۔ ورنہ دنیا کی کل گندم کا چالیس فیصد صرف روس اور یوکرین پیدا کرتے ہیں۔ سو یورپ سمیت دنیا میں ایسے بہت سے ممالک ہیں جن کا گندم کے لئے سارا انحصار ہی روس یا یوکرین پر ہے۔ اسی لئے روس نے اس جنگ کو محض ملٹری آپریشن والی دھیمی آنچ پر رکھا ہے تاکہ دنیا میں گندم کا بحران پیدا نہ ہو۔ لیکن گندم کی قیمتیں تو بڑھی ہیں۔ اگر ہم اپنی گندم خود پیدا نہ کر رہے ہوتے تو اس کا اثر ہم پر بھی پڑنا تھا۔
اگر ہم جنگی صورتحال سے نکل کر حالت امن کے بین الاقوامی اثرات دیکھیں تو صرف امریکی صدارتی الیکشن کا ہی ہم پر اتنا گہرا اثر پڑتا آیا ہے کہ ریپبلکن دور میں ہمارے ہاں مارشل لاء لگتے رہے ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی کے دور میں آمریت کا خاتمہ ہوتا رہا ہے۔ جب ریپبلکن صدر جیت کر آتا تو ہم سے یہ مطالبہ ہوتا کہ اپنے تعلیمی نصاب سے قرآنی آیات نکالئے ورنہ ہم فلاں فلاں پابندی لگا دیں گے۔ جبکہ ڈیموکریٹک صدر کہتا، ہم جنس پرستی کو آزادی دیجئے، اور فلاں فلاں آئینی شق کا خاتمہ کیجئے ورنہ ہم نے آپ کا گلا دبا دینا ہے۔
اگر آپ اس پورے پس منظر کو ذہن میں کر کھ غور فرمائیں تو یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم خود کو بین الاقوامی سیاست سے لاتعلق رکھ سکیں۔ ہمارے ہر شہری کو اس کا شعور ہونا چاہئے، اور اس کی ہر پیش رفت سے باخبر ہونا چاہئے۔ کیونکہ کسی بھی ملک کی داخلی سیاست بین الاقوامی سیاست کے ہی زیر اثر آگے بڑھتی ہے۔ آپ نے دیکھا نہیں کہ اپنے پہلے دور میں ڈونلڈ ٹرمپ نے عمران خان کو سر پر بٹھا رکھا تھا۔ لیکن جب جو بائیڈن اقتدار میں آیا تو عمران خان کو اس ماتم سے ہی فرصت نہ تھی کہ بائیڈن مجھے کال کیوں نہیں کرتا؟ کال تو خان صاحب کسی پی سی او سے خود ہی کر لیتے لیکن بائیڈن نے ریسیو کہاں کرنی تھی؟ ستم ظریفی دیکھئے کہ خان صاحب اس بائیڈن کی کال کو ترستے رہے جس کی کال سعودی و اماراتی شہزادے تک سننا گوارا نہ کرتے تھے۔ کیا کسی یوتھئے کیلئے یہ سمجھنا ضروری نہیں کہ آخر کیا وجہ تھی کہ بائیڈن ان کے لیڈر کی کال قبول کرنے کو تیار نہ تھا؟ اگر بین الاقوامی سیاست کا شعور ہوتا تو یہ نکتہ سمجھنا مشکل نہ ہوتا۔ یوتھئے کیا پٹواریوں کو بھی اس کا شعور نہیں۔
بین الاقوامی سیاست کی اہمیت سمجھانے کی غرض سے اس کالم کی نوبت یوں آئی کہ روس اور امریکہ کے مابین جو بات چیت چل رہی ہے وہ یہ بات ذہن میں رکھ کر ہو رہی ہے کہ دنیا ایک بار پھر ملٹی پولر ہے۔ یعنی اب کسی ایک ملک کی داداگیری پوری دنیا پر نہیں چلنی۔ اب کچھ ممالک امریکی کیمپ میں ہوں گے تو کچھ روس اور چین کے حلقہ اثر میں۔ جبکہ کچھ ہم جیسے بھی ہوں گے جو کھانے کے وقفے سے قبل امریکی پویلین میں، چائے کے وقفے سے قبل روس اور چین کے پویلین میں اور چائے کے وقفے کے بعد اسٹیڈیم سے ہی غائب ہوں گے۔ اور اس کے باوجود یہ بڑے ممالک ہمارے نخرے اٹھائیں گے۔
آنے والے دنوں میں ہم آپ کو یہی سمجھائیں گے کہ برکس اور مغرب دونوں کیلئے ہم کس طرح بہت اہم بننے جا رہے ہیں۔ اور ہم کس طرح ان میں سے کبھی ایک تو کبھی دوسرے کو دانہ ڈالنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ لکھ کر رکھ لیجئے کہ یہ دونوں ہی دانہ چگے بغیر رہ نہ پائیں گے۔ انڈیا میں کسی نے لکھا ”چین، انڈیا اور ایران برکس کے اہم رکن ہیں، اور پاکستان اس سے باہر ہے۔ پاکستان تنہاء ہوگیا ہے۔“ پڑھ کر ہماری ہنسی چھوٹ گئی۔
لکھنے والا سامنے ہوتا تو عرض کرتے، ”ہم نے امریکہ کو ایک فوجی اڈہ فراہم کردیا تو پوری برکس کی دوڑیں لگ جانی ہیں اور شروع ہوجانے ہیں منت ترلے کہ برکس میں آؤ نا، باہر کیوں کھڑے ہو؟“ ۔ یہ شاید بھول گئے کہ امریکی صدر جان ایف کینیڈی نے ایوب خان کا ایئرپورٹ جا کر استقبال اس لئے نہ کیا تھا کہ تب پاکستان کوئی سپر طاقت تھا۔ وجہ یہ تھی کہ اس ملٹی پولر ورلڈ میں پاکستان چین کی بغل اور روس کے بہت قریب واقع تھا۔ وہی دور پھر سے آرہا ہے۔ یوں یہ کھیل ہمارے لئے نیا نہیں۔ ملٹی پولر ورلڈ میں سوویت یونین تو یونی پولر ورلڈ میں امریکہ جیسی سپر طاقت کے ساتھ ہم افغانستان میں آنکھ مچولی کھیل چکے ہیں۔ سو یہ دونوں ہی کیمپ ہمیں نظر انداز کرنا افورڈ نہیں کرسکتے۔ اسی لئے تو ہم ٹینشن فری بیٹھے ہیں کہ جانتے ہیں دیگ ہمارے بغیر چڑھ تو سکتی ہے، اتر نہیں سکتی۔ یقین جانیئے ملٹی پولر ورلڈ جتنا ہمیں سوٹ کرتا ہے، اتنا کسی کو بھی نہیں کرتا۔