کراچی ادبی میلے میں اسرائیل نواز مصنفہ مدعو، ادیبوں کا سخت احتجاج

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستانی ماہرینِ تعلیم، مصنفین، طلباء اور پیشہ ور افراد کے ایک گروپ نے کراچی لٹریچر فیسٹیول کو ایک کھلا خط لکھ کر اسرائیل نواز جرمن مصنفہ و شاعرہ رونیا اوتھمن کو پروگرام میں مدعو کرنے کیخلاف احتجاج کیا ہے۔

کراچی ادبی میلہ ہر سال پاکستان اور دنیا بھر سے ادباء، ناقدین اور دانشوروں کو مجتمع کرکے ادب کا جشن مناتا ہے۔ اس میں پڑھنے، مباحثے، کتاب کی رونمائی اور دستخط سمیت متعدد سرگرمیاں انجام دی جاتی ہیں۔

میلے کا مقصد ادب سے محبت پیدا کرنا، ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا فروغ اور اہم معاشرتی، سیاسی اور ثقافتی مسائل پر مکالمے کی حوصلہ افزائی کرنا ہے۔

البتہ اس کی انتظامیہ کا اسرائیلی نواز مصنفہ کو مدعو کرنے کا فیصلہ کئی لوگوں کو پسند نہیں آیا، نہ صرف جرمن مصنفہ کی اسرائیل کی حمایت کی وجہ سے بلکہ اسلام اور مسلمانوں سے متعلق مسائل پر ان کے متنازعہ تبصروں اور موقف کی وجہ سے بھی۔

اس سلسلے میں ادیبوں، مصنفین اور ماہرین تعلیم نے احتجاج کرتے ہوئے میلے کی انتظامیہ کو احتجاجی خط تحریر کیا ہے، جس میں اعلان کیا گیا ہے کہ ہم کراچی لٹریچر فیسٹیول کے 2024 کے سیشن کے لیے رونیا اوتھمن کو بطور اسپیکر مدعو کرنے کے فیصلے پر اپنی گہری پریشانی اور غم و غصے کا اظہار کرنے کے لیے فکرمند پاکستانیوں کی حیثیت سے یہ خط لکھ رہے ہیں۔

اوتھمن جرمنی میں مقیم ایک مصنفہ ہیں جنہوں نے صہیونی اور اسلامو فوبک پوزیشن لی ہے اور ایسے پینلز اور مباحثوں میں حصہ لیا ہے جن کا مقصد جرمنی میں فلسطینیوں کے حامی مظاہروں کو یہود مخالف اور اسلام پسند کے طور پر بدنام کرنا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ اوتھمن اور ان کے ساتھی پینلسٹ گذشتہ نومبر میں جرمن اخبار ٹی اے زیڈ کے زیرِ اہتمام ایک مباحثے کے دوران اس بات پر قائم تھے کہ فلسطینیوں سمیت مسلمان تارکینِ وطن اسرائیل کے 75 سالہ قبضے کے خلاف فلسطینی مزاحمت کے ساتھ اظہارِ ہمدردی کرنے کی بنا پر “جہادی” اور “دہشت گرد” ہیں۔

ایک موقع پر انہوں نے حماس کی اصلیت کے بارے میں بے بنیاد دعوے کرتے ہوئے اسے داعش سے تشبیہ دی اور اعلان کیا کہ غزہ پر اسرائیل کی بے دریغ بمباری کو چیلنج کرنے والے غیر سفید فام مصنفین نہ صرف حماس کے معذرت خواہ ہیں بلکہ انہوں نے “قتلِ عام کو اپنا ذاتی دفاع اور مظلوم کو خونخوار مجرم قرار دیا۔”

خط میں کہا گیا کہ بحیثیت پاکستانی ہمیں اوتھمن کا بطور اسپیکر انتخاب ناقابلِ قبول بلکہ درحقیقت پرتشدد لگتا ہے اور خاص طور پر اس بنا پر کہ فلسطینیوں کی اسرائیلی نسل کشی پانچویں مہینے میں داخل ہو گئی ہے جس میں 28,000 سے زیادہ فلسطینی جاں بحق ہوئے جن میں سے 10,000 سے زیادہ بچے تھے۔ اسرائیل نے جان بوجھ کر شعراء اور اساتذہ، ڈاکٹروں اور سب سے پہلے ردِعمل دینے والوں کو قتل کیا ہے۔

احتجاج کے بعد کراچی ادبی میلے کے منتظمین نے اپنی ویب سائٹ پر مقررین کی فہرست سے اسرائیل نواز جرمن مصنفہ اوتھمن کا نام ہٹا دیا ہے، جو  فلسطینی کاز کے لیے پاکستان کی دیرینہ حمایت اور فلسطینی علاقوں پر اسرائیل کے قبضے کی مخالفت کے بھی عین مطابق ہے۔

Related Posts