مولانا آزاد کی پیش گوئی

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

مولانا ابو الکلام آزاد نے شورش کاشمیری کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھامیری بات یاد رکھ لو کہ پاکستان میں صرف جاگیرداروں، بیورو کریسی (افسر شاہی) اور سرمایہ داروں کی حکومت اور اجارہ داری ہو گی عوام کی قسمت ہر گز نہیں بدلے گی ’’بلکہ عوام پہلے سے زیادہ خوار ہو نگے‘‘
بابائے قوم قائد اعظم کی رحلت کے بعد اِس ملک پر انہی کے راج نے عوام کو غریب سے غریب تر اور امیر کو امیر تر بنایا۔
ان دنوں ہر شخص غم جاناں سے نہیں، غم دوراں سے پریشان ہےمہنگائی عروج پر ہے ۔ضرورت کی اشیاء بھی عوام کی دسترس سے باہر ہوگئی ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ بجلی کے بلوں کا ہے عوام تو درکنار خواص بھی بلبلا اٹھے ہیں۔حکومت اور مراعات یافتہ طبقہ کو ابھی تک پوری طرح اندازہ نہیں ہوا کہ مہنگائی کی چکی میں پسنے والے عوام کیلئے بجلی کے بل ناقابل برداشت ہو چکے ہیں۔ کم ماہانہ آمدنی والے ہی نہیں متوسط طبقہ بھی یہ بار گراں اٹھانے کے قابل نہیں رہا۔ عوام کو سیاسی مسائل کے حوالے سے سڑکوں پر لانے کی کوشش کی گئی مگر وہ سڑکوں پر نہیں آئے اور اب کسی سیاسی پارٹی کی کال کے بغیر لوگ گھروں سے نکل آئے ہیں۔حکومت ابھی بھی عوام کی چیخ وپکار سے بے نیاز روٹین کی سرگرمیوں میں مشغول ہے۔عوام کو اگر جینے کی سہولت نہ دی گئی تو پھر یہ طبقہ بھی چین سے نہیں رہ سکے گا ۔عوامی ریلہ سب کچھ بہا کر لے جائے گا۔شاید اس وقت کا انتظار کیا جارہا رہے “، جب تخت گرائے جائیں گےجب تاج اچھالے جائیں گے”۔پاکستان کے مختلف طبقوں نے جتھے بنائے ہوئے ہیں تاجر، وکیل، ڈاکٹرزاور دوسرے حلقوں پرذرا سی آنچ آئے تو وہ ہڑتال پر چلے جاتے ہیںاس کا نتیجہ اگلے ہی روز مطالبات تسلیم ہونے کی صورت میں سامنے آ جاتا ہے۔ پہلی بار عوام بھی منظم ہو رہے ہیں ۔حکومت اشرافیہ ،بیوروکریسی، وزراء،قومی وصوبائی اسمبلیوں، سینٹ کے ارکان ججزاورجرنیلزسے وہ سہولتیں واپس لے جو عوام کی شامت سبب ہیں۔دفاترمیں صاحب کے آنے سے پیشتر ہی سارے اے سی آن ہوتے ہیں تاکہ جب صاحب تشریف لائیں تو انہیں ’’گرم‘‘ ہوا نہ لگے، اسی طرح سارے مال سینٹر ایئرکنڈیشنڈ ہیں،سرکاری عمارتیں ہمہ وقت ٹھنڈی ٹھار رہتی ہے۔بہت سے محکموں کے ملازمین کیلئےبجلی کے جتنے یونٹ فری ہیں اس کے بعد برائے نام ادائیگی باقی رہ جاتی ہے ۔انکم ٹیکس صرف سرکاری ملازمین ادا کرتے ہیں۔ اس کے مقابلے میں اربوں کے کاروبار والی مارکیٹوں میں ٹیکس ہزاروں میں اکٹھا ہوتا ہے اگر اس غیرہموار نظام پرکب نظر ثانی کی جائےگی خسارے والے اداروں کااربوں کا خسارہ عوام سےکب تک وصول کیا جائے گا؟لوگ ذہنی بیماریوں میں مبتلا ہو رہے ہیں اور خاندانوںکے سربراہ پریشانی کے عالم میں اپنے بچوں کو جان سےمارکر خودکشیاں کررہے ہیں ۔ کہیں وہ وقت نہ آجائےجب لوگ خود کو مارنے کے بجائے اشرافیہ کواپنا ٹارگٹ بنالیں۔ اب تک لوگوں نے واپڈا اہلکار وں کی پٹائی کی ہے۔لوگ جتنے بپھرے ہوئے ہیں،ذمقتدر طبقے کو اندازہ نہیںکہ عوامی غیظ و غضب کتنی خوفناک شکل اختیار کرسکتا ہے۔ ایک وقت آئے گا جب صورتحال سنبھالے نہ سنبھلے گی۔ حال ہی میں ارجنٹائن میں مہنگائی کے خلاف مظاہروں میں لوٹ مار شروع ہو گئی اور لوگوں نےنہ صرف دکانیں لوٹیں بلکہ لوٹ مار کا یہ سلسلہ دراز سے دراز تر ہوتا چلا گیا۔شدید گرمی میں حبس کا جو عالم ہے اس کے مداوے کیلئے اگر دو پنکھے چلتے اور ایک دو بلب روشن ہوتے ہیں تو اس کا بل بھی پندرہ بیس ہزار ماہوار تنخواہ لینے والے کیلئے پہاڑ ہے ۔ جن لوگوں کو بجلی کے بل ہی نہیں آتے کروڑوں نہیں بلکہ اربوں روپے ایسےمتقدر طبقوں کی آسائش کیلئے خرچ کئے جاتے ہیں کم از کم وہی ختم کر دیےجائیں۔مگر پاکستان میںایسا ممکن ہوتا دکھائی نہیں دیتا کیونکہ پارلیمنٹ میں کوئی ایسانمائندہ نہیں جو غریب کیلئے آواز اٹھائے ۔ ذرائع آمدن اورصنعت و حرفت کی تباہ حالی سے بے روزگاری عام اور قوت خرید ختم ہو رہی ہے۔ دو وقت کی روٹی قصہ پارینہ بنتی نظر آ رہی ہے عام شہری کے لئے بجلی گیس کے بلوں کی ادائیگی اور پٹرول ڈلوانے کے بعد کچھ بچتا ہی نہیں ہے، بچوں کے سکولوں اور کالجوں کی فیسوں کی ادائیگی کے لئے لوگ اپنے موٹر سائیکل اور دوسرے اثاثہ جات بیچنے پر مجبور ہیں۔ بجلی کی فی یونٹ قیمت جس طرح بڑھتی چلی جا رہی ہے اسے دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ فی یونٹ 100 روپے کا بھی ہو سکتا ہے۔ بجلی کا گردشی قرضہ 600 ارب روپے سے تجاوز کر چکا ہے۔
عوام کے حالیہ مظاہرے کسی باضابطہ اعلان یا قیادت کے تحت نہیں بلکہ لوگ اپنے اپنے طور پر سڑکوں پر نکلے اگربپھرے ہوئے عوام کا رخ، “شرفاء” کی طرف مڑگیا تو پھر دمادم مست قلندر ہو گا،انارکی ہی پھیلے گی اس سے پہلے کہ طبل جنگ بج جائے، حکمرانوں کو ہوش کے ناخن لینے چاہئیں۔
پاکستان میں فی یونٹ بجلی ٹیکسز کے ساتھ 65روپے سے تجاوز کر گئی ہے۔ اور 90 روپے تک جانے کا قوی امکان ہے۔بنگلہ دیش میں بجلی کا ایک یونٹ 6اعشاریہ سات ٹکے میں ہے جو پاکستانی روپے میں 12روپے ساٹھ پیسے بنتا ہے۔ اسی طرح انڈیا میں بجلی کا ایک یونٹ 3سے 5بھارتی روپے میں دیا جا رہا ہے جو کہ پاکستانی روپے میں 15سے 18روپے بنتی ہے۔ بنگلہ دیش کا ٹکہ پاکستان کے 2روپے 76پیسے کے برابر ہے جبکہ انڈین روپیہ پاکستان کے 3روپے 63پیسے کا ہو گیا ہے۔ایک امریکی ڈالر پاکستان کی اوپن مارکیٹ میں 317روپے پچاس پیسے تک چلا گیا ہے جبکہ ایک امریکی ڈالر بنگلہ دیش میں 110بنگلہ دیشی ٹکوں سے بھی کم ہے۔ امریکی ڈالر بھارت میں 82روپے پچپن پیسے انڈین روپے کا مل رہا ہے۔ اس طرح جنوبی ایشیاء میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی قدر میں تاریخی کمی رونما ہو گئی ہے۔ اس کے ذمہ دار پاکستان کے وہ مافیاز ہیں جنہوں نے پاکستان میں کارٹلائزیشن کر رکھی ہے۔
بجلی کے شعبہ میں آئی ایم ایف نے ریٹس بڑھانے کی بات نہیں کی، بلکہ سو کروڑ روپے روزانہ کے نقصان کو کنٹرول کرنےکا کہا۔ لیکن حکومتیں نقصانات کنٹرول کرنے کی صلاحیت سے عاری ہیں ۔ ان کا زور صرف عوام پرچلتا ہے لہٰذا بجلی کے نرخ بڑھا کر معاملات کو چلایا جا رہا ہے۔ اس کے علاوہ پی آئی اے کے ، ریلویز، سٹیل مل، جیسے جانے کتنے ہی سفید ہاتھی حکومت نے پال رکھے ہیں جن کے اخراجات کا بوجھ عوام کو برداشت کرنا پڑ رہا ہے۔ بڑے بڑے کاروباری حضرات، صنعت کاراور زمیندار ٹیکس ادا نہیں کرتے تو کیا ان سے ٹیکس وصول کرنا عوام کی ذمہ داری ہے؟ حکومت کی اس نااہلی اور نالائقی کی قیمت بھی عوام ادا کررہے ہیں ۔اگر آج بھی حکومت نقصانات، فضول خرچیوں اور چوریوں کو کنٹرول کر لے تو عوام کوخاطر خواہ ریلیف مل سکتا ہے۔
حکومتوں کا یہ کہنا کہ پاکستانی ٹیکس نہیں دیتے سراسر جھوٹ ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2010 میں 1500 بلین روپے ٹیکس اکٹھا کیاگیاجو 2023 میں 9400 بلین روپے تک پہنچ چکا ہے۔ یعنی تیرہ سال میں ٹیکس میں 7900 بلین روپے اضافی وصول ہوئے۔ لیکن ہماری حکومتیں پھر بھی عوام کو ٹیکس چور قرار دیتی ہیں۔ اصل مسئلہ ٹیکس نہیں بلکہ کرپشن اوربےقابو حکومتی اخراجات ہیں، جس پر کوئی توجہ نہیں دینا چاہتا ۔2010 میں حکومتی اخراجات 2400 ارب تھے جو 2023 میں گیارہ ہزار ارب سے بھی تجاوز کرچکے ہیں۔ پاکستانی بیچارے ڈائریکٹ ٹیکس تو دیتے ہی ہیں لیکن ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن سے تو ملک کا کوئی شہری حتیٰ کہ معصوم بچے تک محفوظ نہیں۔اگر کوئی شہری کسی مکان، گاڑی یا موٹر سائیکل کا مالک ہے تو اسے ایک نہیں بلکہ متعدد قسم کے ٹیکس ادا کرنا پڑتے ہیں۔ پہننے کے کپڑے، جوتے، کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات پر بھاری ٹیکس عائد ہیں۔کتنے شرم کی بات ہے جو بچوں کے دودھ، کتابوں، کھلونوں اور ٹافیوں تک پر ٹیکس دیتے ہیںانہیں ٹیکس چور قرار دیا جاتا ہے۔140کوئی پوچھے کہ واپڈا والےاور دوسرے اداروں کے افسران،ججز،وزراء ارکان اسمبلی مفت بجلی کیوں استعمال کرتے ہیں، ملک میں جتنی بھی بجلی چوری ہوتی ہے وہ سارے لاسز عوام بھرتے ہیں ۔ اشرافیہ کی اس عیش و عشرت کے باعث عوام ان کے سگریٹوں کی جگہ جلتے ہیں۔ لوگ اب جان چکے کہ دو تین فیصد مراعات یافتہ لوگ عوام کا خون نچوڑ رہے ہیں۔ دس دس بارہ بارہ لاکھ تنخواہیں اور پنشنیں لیتے ہیں، ریٹائرمنٹ پر پلاٹ اور دوسری اشیاء۔۔۔ پاکستان تو اصل میں انہی لوگوں کا ہے
بجلی سے لے کر ٹیلی فون تک فری ہیں ،انکی بلا سے “بوم بسے یا ہما رہے”عوام کی حالت یہ ہے کہ
اب تو اتنی بھی میسر نہیں مے خانے میں
جتنی ہم چھوڑ دیا کرتے تھے پیمانے میں
نگرانوں سے بھی کوئی توقع ممکن نہیں یہ بھی عوام کے تڑپنے کا تماشہ دیکھ رہےہیں۔لوگوںکو قسطوں میں مارا جا رہا ہے۔ اسی لیےشاکر شجاع آبادی نے کہا ہے۔
یک لخت مکا تری جان چھٹے۔ مولانا ابوالکلام آزاد کاکہاحرف بحرف پورا ہورہا ہے۔

Related Posts