اسلامی تعلیمات پر حملہ

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام تمام مذاہب کی عبادت گاہوں اورشعائرکے احترام کا درس دیتا ہے، فیصل آباد کی تحصیل جڑانوالہ سانحے پر ہر درد دِل رکھنے والاغم واندوہ کی کیفیت میں ہے۔جو کچھ جان،مال اور املاک کا نقصان ہوا اس کی مذہب، ملکی قانون اور ہماری معاشرتی اقدار میں کوئی جگہ نہیں۔

یہ اسلامی روایات و تعلیمات پر ”حملہ“ ہے۔ اسلام رنگ و نسل اور علاقائی و طبقاتی تقسیم کے خاتمے اور اخوت و محبت، رواداری اور باہمی ہمدردی کے فروغ کادین ہے۔ اسلام میںرنگ ونسل کے بجائےنیکی اور تقوی فوقیت کی بنیاد ہیں۔ساری مخلوق کو” الخلق عیال اللہ” کہہ کراللہ کا کنبہ قرار دیا گیا۔ قرآن میں ایک انسان کےقتل کو پوری انسانیت کا قتل اور ایک انسان کی زندگی پوری انسانیت کی زندگی قرار دی گئی ہے۔”فرمان نبوی کے مطابق انسانی جان کی حرمت کعبہ سے بھی زیادہ ہے۔ حضور اکرم کا لطف وکرم اتناعام ہےکہ مسلم اور غیر مسلم، یگانےاور بیگانےسبھی یکساں طور پر اس سے مستفید ہوتے ہیں۔ آپ تو ان کے لیے بھی بے قرار و مضطرب رہے جن کا وتیرہ آپ کو ایذا پہنچانا تھا۔ اہل مکہ نے کون ساستم نہ ڈھایامگرفتح مکہ میں غالب ہونے کے باوجود انہیں”لاتثریب علیکم الیوم“ (آج کے دن تم پر کوئی گرفت نہیں)کا تسکین بھرا پیغام دیا۔
اسلامی ریاست میں مقیم غیر مسلموں کو ”ذمی“اس لیےکہا جاتا ہے کہ ”ان کی جان و مال، عزت اور شہری حقوق کی حفاظت اسلامی ریاست کی ذمہ داری ہے۔رسول اکرم کا فرمان ہے”جس نے کسی معاہد و ذمی“ (اقلیتی فرد) پر ظلم کیا، اسے ستایا، اس کی کوئی چیز اس کی دلی مرضی کے بغیر لی وہ جان لے کہ قیامت کے روز میں اس کا وکیل ہوں گا۔ اور پھر میں ہی غالب رہوں گا۔“
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے نجران کے مسیحی حضرات کو مسجدنبوی میںٹھہرایااور انہیںاپنے قبلے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھنے کی اجازت دی ،ان سے معاہدے میں فرمایا: ”ہم تمہارے اور تمہارے ہمسایہ و حلیفوں کے وطن اور بیرون وطن اموال و نفوس مذہب اور قرابت داروں کی عزت و وقار پر تحفظ کے ذمہ دار ہیں۔ پادریوں، گوشہ نشینوں اور دیگر مذہبی رہنماؤں کی عزت و احترام کا خیال رکھا جائے گا، قبل از اسلام کے قتل پر مواخذہ نہ ہو گا۔ نہ ہی کسی فرد کو کسی دوسرے کی وجہ سے پکڑا جائے گا اور عدالتوں میں (بلا تمیز) مکمل انصاف ملے گا۔“
اسی تربیت کا اثر تھا کہ صحابہ کرام ”ذمیوں“ کے اموال و اسباب کی طرف نگاہ تک اٹھا کر نہیں دیکھتے تھے، ”ابو عبدالرحمن اورحضرت سعدایک سفر میں تھے، رات ہوئی تو قریب میں ایک ”ذمی“ کا گھر تھا، وہ گھر میں موجود نہیں تھا۔ حضرت سعد نے کہا: ”اگر تم، کل قیامت کے روز، ایمان کی حالت میں اپنے رب سے ملنا چاہتے ہو تو اس (غیر مسلم) کی کسی چیز کو ہاتھ نہ لگانا۔“ ابو عبدالرحمن کہتے ہیں: ” ہم نے ساری رات بھوک کی حالت میں اس ”ذمی“ کی دیوار کے سائے میں گزار دی۔“
حضرت عمر بن خطاب ؓ پر ایک اقلیتی فرد نے حملہ کیا تھا۔ مگرآپ نےجان کنی کے عالم آنے والےخلیفہ کے لیے وصیت لکھوائی کہ وہ معاہد (غیر مسلموں) سے بھلائی کرے، ان سے کئے ہوئے وعدوں کو پورا کرے، ان کے لیے لڑنا پڑے تو ہچکچائے نہیں اورطاقت سے زیادہ ان پر بوجھ نہ ڈالے۔“ حضرت علی نے ایک یہودی کے پاس زرہ گروی رکھی۔ قرض کی ادائیگی کے بعد زرہ مانگی تو اس نے کہا یہ تو میری ہے۔ حضرت علی امیر المومنین تھے، مگر سختی نہیں کی، معاملہ قاضی شریح کی عدالت میں پہنچا۔ حضرت علی سے گواہ طلب کئے گئے، انہوں نے اپنے بیٹے حضرت حسن اور غلام قنبر کے نام دئیے، مگر قاضی نے ان کی گواہی قبول نہ کرتے ہوئے غیر مسلم کے حق میں فیصلہ کیا توامیر المومنین نے اس فیصلے کو برضا و رغبت قبول کر لیا۔ یہ رویہ دیکھ کر وہ یہودی مسلمان ہو گیا۔
اموی حکمران ولید بن عبدالملک نے جامع مسجد دمشق کی وسعت کےلئےارد گرد کے مکانات خرید ے، ساتھ ہی ایک چھوٹا سا گرجابھی مسجد میں شامل کر لیا۔عیسائی خاموش رہے، مگر جوں ہی حضرت عمر بن عبدالعزیز ؓ خلیفہ بنے تو انہوں نے شکوہ کیا۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے اسی وقت حکم دیا کہ جامع مسجد دمشق کا جوحصہ گرجا والی جگہ پر ہے اسےگراکرسرکاری خرچے پرگرجا تعمیر کر دیا جائے۔ اس حکم کے بعدمسلمانوں میں اضطراب کی لہر دوڑ گئی، چنانچہ مسلم زعماء عیسائیوں سے ملے، انہیں منہ مانگی قیمت اورمتبادل جگہ دے کر راضی کیا توعیسائیوں نے خود جاکر اس حکم کو منسوخ کرایا۔
پاکستان کےسارے شہری یکساں حقوق رکھتے ہیں۔ ان کی جان، مال، آبرو اور املاک کا تحفظ ریاست کی ذمے داری ہے۔ جڑانوالہ سانحے کا پس منظرعینی شاہد ین کے مطابق دوغیر مسلم افرادعامر اور اس کے بھائی نے مبینہ طور پر رات کے وقت کچھ توہین آمیز پمفلٹ لکھے اور مبینہ طور پر قران پاک کے چند اوراق بھی جلا ئے۔فجر کی نماز کے بعد اس واقعے کی اطلاع ملنے پر مشتعل افراد کی بڑی تعداد علاقے میں جمع ہو گئی مظاہرین نے نہ صرف اس بستی کے گرجا گھروں کو نذر آتش کیا بلکہ کالونی کےمکانات کو بھی آگ لگا دی۔بھاری نفری تعینات ہونے کے باجود پولیس مظاہرین کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی۔بشپ ندیم کا مران کے بقول چرچ میں مقدس کتابوں بائبل اور زبور کو جلایا گیا مسیحی قبرستانوں میں قبروں کو مسمارکیا گیا، آن کےبقول یہ حملہ پاکستان کی ساکھ پر ہوا ہے، یہ ملک کےخلاف سازش ہے، خدا کرے ایسا واقعہ دوبارہ نہ ہو، اگر کسی فرد واحد نے یہ کام کیا تو پوری آبادی کا کوئی قصور نہیں، جڑانوالہ واقعے کی مکمل تحقیقات کرکے بلا تفریق سزا دی جائے۔بشپ سباسٹین شا نے کہا کہ میں سمجھتا ہوں کہ جڑانوالہ کا واقعہ پلاننگ کے تحت ہوا، کوئی بھی مسیحی قرآن کریم کی بے حرمتی کا سوچ بھی نہیں سکتا،جس نےبھی ایسا کیا انتشار پھیلایا۔
کس کی دنیا لٹی، کون جاں سے گیا
قراآن سوزی ہو یا زبور وبائبل کی دونوں قابل مذمت ہیں۔ کوئی بھی ذی شعور انسان چاہے وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ایسے شنیع عمل کی مذمت کیے بغیر نہیں رہ سکتا۔ سینٹر فار ریسرچ اینڈ سیکیورٹی اسٹڈیز (سی آر ایس ایس) کی رپورٹ کے مطابق 1947 سے 2021 تک توہین مذہب کے الزامات میں 18 خواتین اور 71 مردوں کو ماورائے عدالت قتل کیا گیا، اب تک 107 خواتین اور ایک ہزار 1308مردوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے ہیں۔ 2011 سے 2021 کے دوران ایک ہزار 287 شہریوں پر توہین مذہب کے الزامات لگائے گئے 70 فیصد سے زائد کیسز پنجاب میں رپورٹ ہوئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے قانون سازوں کو تجویز دی تھی کہ موجودہ قانون میں ترمیم کریں تاکہ ایسے افراد جو توہین مذہب کے غلط الزامات لگاتے ہیں انہیں یکساں سزا دی جائے۔
توہین مذہب کے قوانین 1860 میں انگریزوں کے دور میں بنائے گئے تھے۔ابتدائی طور پر 1927 میں تعزیرات ہند کے تحت توہین مذہب کے قوانین 295، 296، 297 اور 298 متعارف کروائے گئے، بعد ازاں مسلم کارپینٹر علم الدین کے کیس کے بعد شق 295 میں ایک اور ضمنی شق 295 اے شامل کی گئی۔علم الدین نے توہین مذہب سے متعلق کتاب شائع کرنے پر راجپال کو قتل کیا تھا۔
سانحہ جڑانوالہ کے منصوبہ سازوں قرآنِ کریم اور زبور و انجیل کی اہانت کرنےوالوں،مساجد سے اعلانات کرکے لوگوںکو مشتعل کرنے والوں کو بلاتفریق قانونی گرفت میں لایا جائے۔جن گھروں اور عبادت گاہوں کو نقصان پہنچایا گیا حکومت ان کی بحالی کے اعلانات نہیں فوری اقدامات کرے۔ایسے واقعات کے سدباب کے لیے ضروری ہے کہ ملوث مجرموں کو سخت ترین سزا دی جائے۔ خصوصی عدالتیں قائم کی جائیں جو روزانہ سماعت کریں۔ میڈیا بھی یک طرفہ پروپیگنڈے سے احتراز کرے۔ قانون ہاتھ میں لینے کی کسی کو بھی اجازت نہ دی جائے۔اگر ماضی میں لاہور کی جوزف کالونی اور دوسرے واقعات میں انتظامیہ بروقت کارروائی کرتی تو لوگوں کے اشتعال کی نوبت نہ آتی، تمام مسلم اور غیر مسلم شہریوں کی جان، مال، آبرو اور املاک کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے۔غیر مسلم اقلیتوں پربھی لازم ہے کہ وہ مسلمانوں کے فکری و روحانی جذبات واحساسات کا خیال کریں،اور اسلامی شعائر، مقدس مقامات اور ہستیوں کی بےحرمتی کرنے والی کالی بھیڑوں پر نظر رکھیں۔ شعوری اور لاشعوری طور پر دوسروں کے جذبات و احساسات کو نشانہ بنانے سے گریز کریں”باہمی روا داری“ کی فضا کو خراب کرنے والے لوگ پاکستانی قوم کے دشمن ہیں۔ مسیحی اور مسلم قائدین مل کرمشترکہ موقف اختیار کریں قرآن سوزی کرکےاشتعال کو ہوا دینے والے ہوں یا زبور وبائبل کی بے حرمتی کرنے والے،تماشائی بنےپولیس اہلکاروںگرجوں پر حملہ آوروں،انہیں نذرِ آتش کرنے والوں کے خلاف بھی بلا امتیاز کارروائی کی جائے۔اگر ایسانہ کیا گیاتو خدشہ ہے کہ ردعمل کے نام پر یہ آگ مزید نہ پھیلتی چلی جائے۔

Related Posts