چین کی میزبانی میں سعودی عرب اور ایران کے تاریخی معاہدے میں کیا طے پایا؟

مقبول خبریں

کالمز

zia
برسوں ایران میں رہنے والی اسرائیلی جاسوس خاتون کی کہانی
Philippines, Pakistan, National Day, Dr. Emmanuel Fernandez, bilateral ties, diplomacy, climate change, development, peace, trade, education, cultural exchange, sustainable future, regional cooperation, Mabuhay, Filipino community, Islamabad celebration, soft power, South-South partnerships, innovation, resilience, post-colonial nations, mutual respect, global south
مشترکہ جدوجہد اور روشن مستقبل کی ایک خوبصورت تقریب
Munir-Ahmed-OPED-768x768-1-750x750
روسی کے قومی دن کی خوبصورت تقریب

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

سات سال تک کشیدہ تعلقات اور سفارتی تناو کے بعد ایران اور سعودی عرب کے مابین سفارتی تعلقات بحال کرنے اور دونوں ممالک میں سفارتخانے اور مشنز کو دوبارہ کھولنے کا ایک تاریخی معاہدہ طے پا گیا ہے۔

چین کی ثالثی میں ہونے والا یہ معاہدہ بیجنگ میں طے پایا ہے، جہاں ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی اور ان کے سعودی ہم منصب کے درمیان کئی دنوں تک مذاکرات ہوئے۔ جمعہ کے روز ایران، سعودی عرب اور چین کی جانب سے سفارتی تعلقات کی بحالی کے معاہدے کا مشترکہ اعلان سامنے آیا۔ مشرق وسطیٰ میں یہ اہم ترین پیشرفت دونوں ملکوں کے مابین سات سال تک سفارتی تعلقات کے خاتمے اور شدید تناو کے بعد سامنے آئی ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ایران اور سعودیہ تعلقات کی بحالی امریکا کیلئے بڑا دھچکا، خاموش نہیں بیٹھے گا، تجزیہ کار

رپورٹ کے مطابق مشترکہ اعلامیہ پر سعودی عرب کے قومی سلامتی کے مشیر مسید العیبان، ان کے ایرانی ہم منصب علی شمخانی اور چینی کمیونسٹ پارٹی کے مرکزی خارجہ امور کمیشن کے ڈائریکٹر وانگ یی نے دستخط کیے ہیں۔ علی شمخانی پیر سے بیجنگ میں اپنے سعودی ہم منصب کے ساتھ تہران اور ریاض کے درمیان مسائل کا حتمی حل تلاش کرنے کے لیے اہم ترین مذاکرات میں مصروف تھے۔

یہ مذاکرات گذشتہ ماہ بیجنگ میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور ان کے چینی ہم منصب شی جن پنگ کے درمیان ہونے والی ملاقات کے بعد ہوئے۔ بیان کے مطابق اسلامی جمہوریہ ایران اور سعودی عرب نے دو ماہ کے اندر سفارتی تعلقات بحال کرنے اور سفارتخانے دوبارہ کھولنے پر اتفاق کیا ہے۔ طے پایا ہے کہ دونوں ملکوں کے وزرائے خارجہ اس فیصلے پر عملدرآمد کے لیے میٹنگ کریں گے اور سفیروں کے تبادلے کے لیے ضروری انتظامات کریں گے۔

بیان میں کہا گیا ہے کہ دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کی خود مختاری کے احترام اور ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت پر زور دیتے ہوئے یکم اپریل 2001ء کو طے پانے والے سکیورٹی تعاون کے معاہدے اور ساتھ ہی 5/27/1998 کو دستخط کیے گئے عمومی تعاون کے معاہدے پر عمل درآمد پر بھی اتفاق کیا۔  اس معاہدے میں دونوں ممالک نے اقتصادی، تجارتی، سرمایہ کاری، تکنیکی، سائنسی، ثقافتی، کھیلوں اور نوجوانوں کے امور میں تعاون کو فروغ دینے پر اتفاق کیا تھا۔

تینوں ملکوں (ایران، سعودی عرب اور چین) نے علاقائی اور بین الاقوامی امن و سلامتی کو مستحکم کرنے کے لیے تمام کوششیں بروئے کار لانے کے لیے اپنے پختہ عزم اور آمادگی کا بھی اعلان کیا۔ تہران اور ریاض نے فریقین کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کے لیے عراق، عمان اور چین کی کوششوں کو بھی سراہا۔

یاد رہے کہ 2016ء میں سعودی عرب کے ممتاز شیعہ عالم دین باقر النمر کو سعودی حکومت کی جانب سے پھانسی دیئے جانے کے بعد دونوں ممالک میں تعلقات انتہائی کشیدہ ہوگئے تھے۔ شیخ نمر کی موت کے بعد تہران میں مشتعل مظاہرین نے سعودی سفارتخانے پر دھاوا بول دیا تھا، جس کے بعد ایران اور سعودیہ کے مابین سفارتی تعلقات ختم ہوگئے۔

رپورٹس کے مطابق چین سے پہلے عراق نے ایران اور سعودی عرب کے مابین ثالثی کی کوششیں کی تھیں۔ دونوں فریقین نے اپریل 2021ء سے عراقی دارالحکومت بغداد میں مذاکرات کے پانچ دور منعقد کیے تھے۔ جمعہ کے روز جاری مشترکہ بیان میں ایران اور سعودی عرب نے 2021ء اور 2022ء میں دونوں فریقین کے درمیان مذاکرات کی میزبانی کرنے پر عراق اور عمان کے ساتھ ساتھ عوامی جمہوریہ چین کے رہنماؤں اور حکومت کا بھی اس ملک میں ہونے والے مذاکرات کی میزبانی اور حمایت کرنے پر شکریہ ادا کیا گیا۔

دریں اثناء علی شمخانی نے جمعہ کے روز عراقی وزیراعظم محمد شیاع السوڈانی کے ساتھ فون پر بات کی، تاکہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان مذاکرات کے پانچ دور کی میزبانی میں بغداد کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا جا سکے۔ انہوں نے عراق کی جانب سے تہران اور ریاض کے درمیان نئے معاہدے تک پہنچنے کے لیے کی جانے والی کوششوں کو بھی بہت قیمتی قرار دیا۔ ایران اور سعودی عرب کے مابین تعلقات کی بحالی کو خطے میں ایران کو تنہا کرنے کی امریکی کوششوں کی یکسر ناکامی تصور کیا جاتا ہے۔

حالیہ کچھ عرصے میں امریکی اسٹیبلشمنٹ نے صیہونی حکومت کے ساتھ مل کر سخت نفسیاتی جنگ کے ذریعے ایران کو خطے میں تنہا کرنے اور خصوصاً مشرق وسطیٰ میں ایران کی مسلمہ پوزیشن کو کمزور کرنے کی پھرپور کوششیں کی ہیں۔ اس کے باوجود خطے کے دو اہم ترین ممالک کے درمیان تعلقات کی مکمل بحالی کی صورت میں امریکی اور صیہونی حکومت کو ایک اور بڑی ناکامی کا سامنا ہوا ہے۔

ساتھ ہی چین نے اہم ترین تنازعے میں کردار ادا کرکے عالمی منظر نامے میں اپنے قائدانہ کردار کو منوانے کی متاثر کن کوشش کی ہے، جو کہ امریکہ کی ایک اور ناکامی ہے۔

Related Posts