کراچی میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائمز، جرائم کے سدباب کیلئے کیا ضروری ہے؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کراچی پولیس
(فوٹو: جیو نیوز)

ملک کے سب سے بڑے شہر کراچی کے میٹرو ایریا کی آبادی 2023 میں 1 کروڑ 70 لاکھ سے زائد شمار کی جاتی ہے۔ روز افزوں آبادی کے باعث معاشی حب امن و امان کے مسائل کا شکار ہے۔

بدقسمتی سے 2022 میں کراچی میں سیکڑوں ایسے جرائم کا اندراج سامنے آیا جس سے ہزاروں رہائشیوں کی زندگیاں براہِ راست متاثر ہوئیں۔

یہ بھی پڑھیں:

کیا آپ جانتے ہیں کہ ہر پاکستانی پر قرضوں کا کتنا بوجھ ہے؟

عالمی آرگنائزڈ کرائم انڈیکس کا کہنا ہے کہ پاکستان میں جرائم کا اسکور 6 اعشاریہ 28 دیگر ممالک سے کہیں زیادہ ہے جبکہ پاکستان 193 ممالک میں سے 29ویں نمبر پر، ایشیا کے 46 ممالک میں 10ویں جبکہ جنوبی ایشیا کے 8ممالک میں دوسرے نمبر پر ہے۔

جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح کراچی کو دنیا کے خطرناک ترین شہروں میں شامل کر رہی ہے جہاں روزانہ ہزاروں شہری اپنی قیمتی اشیاء سے محروم ہورہے ہیں تاہم بدقسمتی سے حکومتی اقدامات کے فقدان کے باعث نوجوان مجرم بندوق کی نوک پر ہزاروں شہریوں کو آزادی سے لوٹ لیتے ہیں۔

گزشتہ برس 2022 کے جرائم کے اعدادوشمار کے مطابق کراچی میں سب سے زیادہ گاڑیوں کی چوری اور موبائل فون چھیننے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ سڑکوں پر سب سے بڑی مجرمانہ سرگرمی موٹر سائیکل کی چوری ہے۔

موٹر سائیکل چوری کے واقعات کی تعداد 2022 میں 51 ہزار 901 رہی جبکہ دوسرا سب سے زیادہ رپورٹ کیا جانے والا جرم پورٹیبل ڈیوائس یا موبائل فون چھیننا رہا۔ 28 ہزار 561 موبائل فونز چھینے گئے جن میں سے صرف 593 موبائل فونزجبکہ 51 ہزار موٹر سائیکلز چوری یا ڈکیتی کے مقابلے میں 3 ہزار 182 موٹر سائیکلز برآمد ہوئے۔

شہرِ قائد میں رپورٹ کیا گیا دوسرا سب سے بڑا جرم 4 پہیوں کی گاڑی جو زیادہ تر کاریں ہوتی ہیں، ان کو چھیننا یا چوری کرنا ہے۔ 2022 میں 2 ہزار 105 گاڑیاں چوری جبکہ 161 چھین لی گئیں۔

سال 2022 میں قتل کے تناسب میں بھی اضافہ ہوا۔ اعدادوشمار کے  مطابق مجموعی طور پر قتل کے 593 واقعات رپورٹ ہوئے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر میں بڑھتے ہوئے اسٹریٹ کرائم کی وجہ سے شہری سڑکوں پر آزادانہ نقل و حرکت کرنے سے بہت خوفزدہ ہیں۔ پاکستان کے معاشی حب کو جرائم کی شرح سے نمٹنے کے لیے بیڈ گورننس کا سامنا ہے۔

سندھ پولیس کے سرکاری جرائم کے اعدادوشمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2022 کے پہلے  7 ماہ کے دوران کراچی رینج میں افراد اور جائیداد کے خلاف 42,979 سے زائد جرائم رپورٹ ہوئے۔

جرائم کے اعدادوشمار کے مطابق موٹرسائیکل چوری کے 12779اور موٹرسائیکل چھیننے کے 2050واقعات رپورٹ ہوئے۔

سرکاری اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ پورٹیبل فون اور موٹر سائیکل چھیننے اور فور وہیلر اور دو پہیہ گاڑیوں کی چوری کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔ اس کے باوجود املاک اور افراد کے خلاف جرائم کے دوران قتل یا نقصانات کی تعداد میں پچھلے سال کے مقابلے میں کمی آئی ہے۔

نارتھ ناظم آباد بلاک ایچ میں رہنے والے سعد احمد کو نومبر 2022 میں اپنے گھر کے باہر بندوق کی نوک پر موبائل چھیننے کی واردات کا سامنا کرنا پڑا۔ متاثرہ شخص نے بتایا کہ اس نے اپنی پہلی دفتری آمدنی سے نیا آئی فون خریدا تھا لیکن اسے گن پوائنٹ پر چھین لیا گیا۔

حال ہی میں کراچی یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے والے سعد نے کہا کہ وہ کراچی میں امن و امان کی صورتحال سے بہت مایوس ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کراچی میں کسی نے مجرموں کے خلاف سخت کارروائی نہیں کی۔

کورنگی میں رہنے والے ایک اور شہری نعمان شکیل نے بتایا کہ دسمبر  میں ایک مقامی بازار میں ایک اسٹریٹ کریمنل نے بندوق کی نوک پر اس کی موٹر سائیکل چھین لی۔ اس نے ایف آئی آر درج کروائی لیکن بدقسمتی سے، اس کی گاڑی ابھی تک برآمد نہیں ہو سکی۔

نعمان نے کہا کہ کراچی میں مجرم آزادانہ نقل و حرکت کرتے رہتے ہیں اور کوئی بھی ادارہ مجرم کو پکڑنے کیلئے  سنجیدہ نہیں۔

ایڈووکیٹ ضیاء احمد اعوان نے کہا کہ سندھ پولیس کی ناکامی اور سی سی ٹی وی کیمروں کی خرابی کی وجہ سے مجرموں کو شہریوں کو لوٹنے میں آسانی ہوتی ہے۔

ضیاء احمد اعوان نے مزید کہا کہ 20 سے 25 سال کی عمر کے نوجوان مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں کیونکہ ان کے پاس کراچی میں روزگار کے مواقع نہیں ہیں۔

انہوں نے کہا کہ جرائم کی روک تھام میں ناکامی کی بنیادی وجہ  فوجداری انصاف کی ناکامی ہے کہ وہ مجرموں کو سخت سزائیں نہیں دیتا جو اس قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔

جرائم میں ملوث افراد میں ڈکیتی اور چوری کرتے ہوئے پیدا ہونے والا فطری خوف آہستہ آہستہ ختم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ وہ آسانی سے جیل سے رہا ہو جاتے ہیں جس کی وجہ سے ڈاکو آسانی سے دندناتے پھرتے ہیں اور انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔

Related Posts