شادی ایک حساس سماجی مسئلہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نوجوان انتہائی سنجیدہ لگ رہا تھا. فیملی پس منظر بھی اچھا تھا. بظاہر سفید پوش فیملی کا چشم و چراغ نظر آ رہا تھا اور تعلیم یافتہ بھی. وہ ایک میٹنگ کرنا چاہتا تھا سو ہماری میٹنگ ہوگئی۔

اس نے کہا ” ہم شادی انجوائے نہیں کررہے ہیں، ہم نکاح کے تقاضے پورے کررہے ہیں”۔

میں نے ان سے وضاحت چاہی تو انہوں نے کہنا شروع کر دیا۔

“ہماری ارینج میرج ہے. والدین نے ہمارے جذبات کا احساس کیا نہ ہی قدر، مجبوراً ہمیں والدین کی خواہش کا احترام کرنا پڑا. درست الفاظ میں یہی کہا جاسکتا ہے کہ ہم والدین کی غیر ضروری خواہشات یا اَنا کے بھینٹ چڑھ گئے.
اب ہم شادی شدہ لائف انجوائے نہیں کررہے ہیں بلکہ اس کے ضروری تقاضے پورے کرتے جارہے ہیں.
ہم دونوں میاں بیوی اچھی طرح ایک دوسروں کے جذبات و احساسات سے آگاہ ہیں.
میں بطور شوہر اس کی ضرورتوں کا خیال رکھتا ہوں جو ایک شوہر کو رکھنا چاہیئے.کھبی اس کو تنگ نہیں کیا. اور وہ بھی میری ضروریات پورا کرتی ہے. خدمت بھی کرتی ہے یوں زندگی کا پیہہ چلتا رہتا ہے.”

میں نے عرض کیا، اگر نکاح کے ضروری تقاضے پوری ہورہے ہیں تو یہ کافی نہیں.؟

اس نے کہا:

” بلکل بھی نہیں. سماج کے گڑھے ہوئے شادی کے تقاضے الگ ہیں جبکہ حقیقی معنوں میں الگ.
ہم بہت سارے کام نہیں کرسکتے ہیں جو ایک خوشگوار ازداجی زندگی گزارنے کے لئے ضروری ہیں.

ہم کوئی فکر و خیال ڈسکس نہیں کرسکتے.

کسی کتاب پر گفتگو نہیں کرسکتے.

ہم ساتھ کوئی سفر نہیں کرسکتے.

دوست احباب کے گھر نہیں جاسکتے.

ویک اینڈ پر اوٹنگ نہیں کرسکتے.

ہم مستقبل کی پلاننگ بھی نہیں کرتے.

بچوں کے متعلق بھی ہماری کوئی پلاننگ نہیں.

ہم تو کوئی دینی یا رفاہی کام بھی ساتھ نہیں کرسکتے.

ہم بہت کچھ نہیں کرسکتے جو کامیاب ازدواجی زندگی میں کیا جاتا ہے. شادی مقصد بھی ہے ضرورت بھی، عبادت بھی. مگر ہم شاید طبعی ضرورتیں ہی پوری کررہے ہیں.

لائف انجوائے کرنا الگ چیز ہے طبعی ضرورتیں پوری کرنا الگ”.

یہاں یہ بات واضح ہونی چاہیے کہ ہمارے سماج میں
شادی کو صرف سماجی ضرورت سمجھا جاتا ہے.
اور اس میں دو رائے نہیں کہ شادی ایک طبعی ضرورت ہے اور سماجی ضرورت بھی۔

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے. اس نے شادی کو صرف ضرورت کے دائرے تک محدود نہیں رکھا بلکہ ایک کامیاب زندگی کے صالح مقاصد میں شمار کیا ہے.
شادی کو نیکی اور عبادت قرار دیا ہے.
اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شادی/ نکاح کے متعلق دنیا اور اسلام کے نکتہ نظر میں فرق واضح طور پر نظر آجاتا ہے.

اگر شادی کو محض ایک سماجی اور طبعی ضرورت سمجھا جائے تو پھر یہ ضرورت جہاں پوری ہو، جیسے پوری ہو، اور جس لیول میں پوری ہو، بس وہی پیش نظررہےگا. لیکن اگر اس کی اہمیت اور دائرہ کو بڑھا کر اسے مقصد، عبادت اور نیکی و ثواب میں بھی شمار کیا جائے تو پھر اس کی حدود کا تعین مقصد اور عبادت اور تکمیل فرض کے حوالہ سے ہوگا۔

یہی وہ چیز ہے جو اسلام کے فلسفۂ نکاح اور اس کے مضبوط خاندانی نظام کو دوسروں سے ممتاز ومشرف کر دیتی ہے.

یہ بات طے ہے کہ دین اسلام کی نظر میں شادی انسان کی سماجی و طبعی ضرورت بھی ہے. مقصد حیات بھی ہے. عبادت بھی ہے. ایثار و قربانی کا جذبہ بھی. نیکی و بدی بھی.

ایک مسلمان کے اخلاق واطوار اور اس کے ایمان کے لیے شادی ایک مضبوط حصار بھی ہے. قرآن نے اس کو “الحصان” سے تعبیر کیا ہے. اس کی بہت تفصیلات ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ والدین اور سرپرست اپنی اولاد کی اس خوبصورت زندگی کو کیوں تباہ کرنا چاہتے ہیں.

اگر شادی طبعی و سماجی ضرورت ہے تو والدین اپنی اولاد کی اس ضرورت کو اپنی انا کی بھینٹ کیوں چڑھاتے ہیں؟

اگر شادی مقصد زندگی بھی ہے تو بچوں کے اس مقصد کے فوت ہونے میں کیوں مصر رہتے ہیں؟

اگر شادی عبادت بھی ہے تو پھر بچوں کی زندگی بھر کی اس عبادت کو مصیبت کیوں بنا دیتے ہیں؟

اگر ذریعہ نیکی بھی ہے تو اس نیکی کو کیوں بدی بنا دیتے ہیں؟

اگر شادی میں ایثار و جذبہ بھی پایا جاتا ہے تو پھر اس ایثار کو ہمیشہ کے لئے کڑوا کسیلا کیوں بنا دیتے ہیں؟

اگر شادی سے بہترین خاندانی نظام وجود میں آتا ہے تو اس کو برباد کرنے کے درپے ان کے اپنے ہی والدین کیوں ہیں؟

بدقسمتی سے خود ساختہ دیندار لوگ اس رجحان و عمل میں زیادہ ملوث ہیں.

ایسے میں مولوی و شیخ کیوں خاموش رہتے ہیں؟
دین کے داعی بھی تو کھبی ان موضوعات کو نہیں چھیڑتے۔

سماجی مسائل پر بولنے اور لکھنے والے بھی تو ساکت ہیں۔

وہ ان رستے ہوئے ناسور جیسے مسائل کو مسجد و منبر سے کیوں نہیں بیان کرتے ہیں؟

سب کو سانپ کیوں سونگھتا ہے؟

Related Posts