بچپن میں وزیراعظم بننے کا سوچنے والی لز ٹرس
خوابوں کی حقیقت کیا ہے کیا نہیں، یہ انسانی سماج کی بہت دیرینہ بحث ہے، تاہم بہت سے خواب تعبیر بھی پاتے ہیں، اس لیے ماہرین خواب دیکھنے بلکہ بڑے بڑے خواب دیکھنے کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ اب یہی دیکھئے کہ ایک لڑکی بچپن میں وزیر اعظم بننے کا خواب دیکھتی ہے، وقت پر لگا کر گزر جاتا ہے، آج 47 سال کی عمر میں وہ برطانیہ جیسے ترقی یافتہ ملک کی وزیر اعظم بن جاتی ہیں۔
جی ہاں برطانیہ کی نو منتخب وزیر اعظم Liz Truss کی بات ہو رہی ہے، جو بچپن سے وزیر اعظم بننے کا سوچتی تھیں، آج وہ اپنے حریف اپنی ہی پارٹی کے بھارتی نژاد رہنما رشی سونک کو ہرانے کے بعد برطانیہ کی وزیر اعظم منتخب ہوگئیں۔
کہا جاتا ہے کہ جب لز اسکول میں تھیں تو ایک ڈرامے میں انہوں نے برطانیہ کی آئرن لیڈی سمجھی جانے والی اس وقت کی وزیر اعظم مارگریٹ تھیچر کا کردار ادا کیا تھا۔
بادشاہت کی مخالفت
یہی نہیں روایت یہ بھی ہے کہ لز ٹرس جب آکسفورڈ میں پڑھ رہی تھیں اور ان کی عمر ابھی انیس سال تھی تو انہوں نے برطانیہ میں بادشاہت ختم کرنے کیلئے ریفرنڈم کرانے کا مطالبہ کیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ کوئی پیدا ہی حکومت کرنے کے لیے ہو، ایسا کیسے ہو سکتا ہے۔ تاہم قدرت کی ستم ظریفی یہ بھی ہے کہ آج لز کا وزیر اعظم بننے کا خواب ملکہ برطانیہ کے دربار سے منظوری کے بعد ہی پورا ہوا ہے۔
برطانیہ کی تیسری خاتون وزیر اعظم
سینتالیس سالہ لز برطانیہ کی تیسری خاتون وزیر اعظم منتخب ہوئی ہیں۔ اس سے قبل مارگریٹ تھیچر اور ٹریزا مے ایسی خواتین رہی ہیں، جنہوں نے ٹین ڈاؤننگ اسٹریٹ میں بطور وزیر اعظم منصب کی ذمے داریاں نبھائیں۔
ان سے قبل ٹریزامے خاتون وزیر اعظم رہی ہیں۔ جو ڈیوڈ کیمرون کی جانب سے بریگزٹ کو روکنے میں ناکامی پر عہدے سے ہاتھ دھو بیٹھنے کے بعد وزیر اعظم منتخب ہوگئی تھیں۔
بریگزٹ کی مخالفت سے یو ٹرن
بریگزٹ یعنی برطانیہ کی یورپی یونین سے علیحدگی برطانیہ میں طویل عرصے تک سیاسی بحران کا باعث بنی رہی ہے۔ یہ بحران دو وزرائے اعظم کا اقتدار لے ڈوبا۔ تھریسا مے کے بعد بورس جانسن وزیر اعظم بنے، مگر وہ مختلف اسکینڈلز میں گھرے رہے، آخر کار ایک اسکینڈل نے ان کی حکومت ختم کردی اور ان کی جگہ لز وزیر اعظم بن گئیں۔
لز ٹرس بھی بریگزٹ کے خلاف مہم میں پیش پیش تھیں۔ وہ بھی یہی چاہتی تھیں کہ برطانیہ یورپی یونین سے نہ نکلے مگر ریفرنڈم میں بریگزٹ کے حامیوں کی جیت کے بعد لز نے اپنے موقف میں تبدیلی پیدا کی، جسے ان کے سیاسی کیرئر کا اہم یوٹرن مانا جاتا ہے۔
لز ٹرس کے والد ریاضی کے پروفیسر اور ماں نرس تھیں، مگر لز کو بچپن سے ہی سیاست کا شوق تھا، جو بعد میں ان کا پروفیشن بن گیا اور آج وہ ملکہ برطانیہ سے وزارت عظمیٰ کے منصب کی توثیق حاصل کرنے والی برطانیہ کی پندرہویں وزیر اعظم بن گئی ہیں۔
لز ٹرس کو در پیش مسائل
لز ٹرس کو سب سے بڑا چیلنج ٹیکسز اور مہنگائی کی شرح میں کمی کا در پیش ہے۔ معیشت سے جڑے ان مسائل کی وجہ سے سابق وزیر اعظم بورس جانسن عوام میں بھی اپنی مقبولیت کھو چکے تھے۔ اس چیز کا لز کو بھی احساس ہے، چنانچہ انہوں نے اپنی تقریر میں عوام کو ریلیف دینے کا اعلان کیا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ وہ ان مسائل کو حل کرنے میں کامیاب ہو پاتی ہیں یا یہ مسائل ان کے اقتدار کی بقا کیلئے خطرہ بنتے ہیں یا آنے والے دنوں میں جلد پتا چل جائے گا۔
تین وزرائے اعظم کیساتھ کام کا تجربہ
لز ٹرس اس سے پہلے ڈیوڈ کیمرون، ٹریزا مے اور بورس جانسن کی کابینہ میں بھی اعلیٰ مناصب پر رہی ہیں۔ انہیں سابق وزیر اعظم بورس جانسن کی سب سے قریبی اور معتمد ساتھی سمجھا جاتا رہا ہے۔
لز ٹرس جانسن کے استعفے کے بعد وزیراعظم کے منصب کیلئے انتخاب کی نامزدگی حاصل کرنے تک برطانیہ کی وزیر خارجہ کے منصب پر فائز تھیں۔ اب وہ مادر ملکہ سے عہدے کی توثیق ملنے کے بعد وزیر اعظم بن گئی ہیں۔
خیال کیا جاتا ہے کہ لز کا طویل حکومتی تجربہ معاشی مسائل میں گھرے ہوئے برطانوی عوام کے مسائل کم کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔