قوالی اور صوفی موسیقی سے محبت کرنے والے ہرشخص کے لئے نصرت فتح علی خان یقیناََ ایک خاص اور منفرد نام ہے۔ جو پاکستان کے ایک مشہور گلوکار تھے، انھوں نے ہی قوالی کو مغربی دنیا میں تعارف کرایا۔
نصرت فتح علی خان کو موسیقی کی دنیا میں ایک طاقت ور آواز کے طور پر پہچانا جاتا ہے، اس کے علاوہ انہیں ”قوالی کا بادشاہ“ بھی کہا جاتا ہے۔ اُن کی قوالیوں میں روحانیت کا عنصر پایا جاتا ہے، جو آج بھی لوگوں کو سرور بخشتا ہے۔
ابتدائی زندگی اور کیریئر
نصرت فتح علی خان 1948 میں فیصل آباد پنجاب میں ایک پنجابی مسلم گھرانے میں پیدا ہوئے۔ اُن کا تعلق ہندوستان کے شہر جالندھر کے علاقے شیخ سے ہے۔ ان کے آباؤاجداد نے وہاں موسیقی اور گانا سیکھا اور اسے بطور پیشہ اپنایا۔
نصرت فتح علی خان کے والد فتح علی خان مشہور قوال تھے، ان کے خاندان میں قوالی کی روایت تقریباً 600 سالوں سے یکے بعد دیگرے آنے والی نسلوں میں منتقل ہوتی رہی۔
شروع میں نصرت فتح علی خان کے والد نہیں چاہتے تھے کہ 600 سالوں سے نسلوں میں منتقل ہونے والے اس سلسلے کو اپنے خاندان میں مزید بڑھائیں، نصرت فتح علی خان نے پیشہ ورانہ راستے کا انتخاب کرتے ہوئے ڈاکٹر یا انجینئر بننے سے بیزاری کا اظہار کیا، انہوں نے قوالی میں اس قدر دلچسپی ظاہر کی، کہ آخر کار اُن کے والد اپنے فیصلے سے پیچھے ہٹ گئے۔
موسیقی کا کیریئر
انہوں نے اپنے کیریئر کی ابتداء 1964 میں کی، سب سے پہلے طبلہ پر عبور حاصل کیا، اُس کے بعد اُن کے والد کی وفات ہوگئی، جس کے بعد انہوں نے موسیقی کی تعلیم اپنے چچا مبارک علی خان اور سلامت علی خان کی نگرانی میں مکمل کی۔
ابتداء میں نصرت فتح علی خان ‘پرویز’ کے نام سے جانے جاتے تھے جب وہ غلام غوث صمدانی سے ملنے گئے تو انہوں نے اپنا نام بدل کر نصرت فتح علی رکھ دیا۔ نصرت فتح علی خان کی سیکھنے کی مہارت کو دیکھ کر اُن کے استاد غلام غوث صمدانی بہت متاثر ہوئے اور انہوں نے یہ پیش گوئی کی کہ وہ مستقبل میں ایک بہترین گلوکار بنیں گے۔
1971نصرت فتح علی خان اپنے چچا مبارک علی خان کی وفات کے بعد، خاندانی قوالی کے باضابطہ رہنما بن گئے اور یہ جماعت نصرت فتح علی خان، مجاہد مبارک علی خان اینڈ پارٹی کے نام سے مشہور ہوئی۔
عوام کے درمیان پہلی کارکردگی
قوالی پارٹی کے ڈائریکٹر کی حیثیت سے نصرت فتح علی خان کی پہلی عوامی کارکردگی کو ریڈیو پاکستان کے زیر اہتمام سالانہ میوزک فیسٹیول جس کو ”جشن بہاران“ کے نام سے جانا جاتا ہے، ایک اسٹوڈیو کی ریکارڈنگ کے طور پرنشر ہوتی تھی۔
نصرت فتح علی خان نے بنیادی طور پر اردو اور پنجابی اور کبھی کبھار فارسی، برج زبان اور ہندی میں بھی گایا تھا۔ پاکستان میں اُن کا پہلا مقبول گانا ’حق علی علی‘ تھا، جو روایتی تکنیک کے ساتھ پیش کیا گیا تھا۔
پانچ بہترین کمپوزیشن
‘آفرین آفرین’
سنگم البم کا ایک گیت، یہ کمپوزیشن سال 1996 میں ریلیز ہوئی تھی۔ یہ گانا جاوید اختر نے لکھا تھا اور خود نصرت فتح علی خان نے کمپوز کیا تھا۔اس مقبول گانے کو ایک پاکستانی ٹی وی شو میں راحت فتح علی خان اور مومنہ مستحسن نے سن 2016 میں دوبارہ زندہ کیا تھا۔
میرے رشکِ قمر
میرے رشکِ قمر ایک غزل قوالی ہے جو اردو کے ایک شاعر فنا بلند شہری کی تحریر کردہ ہے۔ یہ گانا نصرت فتح علی خان نے ترتیب دیا تھا۔ انہوں نے یہ پہلی بار 1988 میں اپنے بھتیجے راحت فتح علی خان کے ساتھ انجام دیا تھا۔ دونوں نے مختلف محافل موسیقی میں یہ گانا پیش کیا جو بہت مقبول ہوا۔
سانوں اِک پال چین نہ آوے
یہ گانا 1993 میں ریلیز ہوا، یہ گانا محفل سماع کنسرٹ نصرت فتح علی خان جلد 28 کا ایک حصہ تھا۔ اس گانے کو اجے دیوگن کی فلم ”چھاپہ“ میں دوبارہ گایا گیا تھا۔
میرا پیا گھر آیا
نصرت فتح علی خان کی یہ قوالی پنجابی شاعر بابا بلھے شاہ نے لکھی تھی۔ 1995 میں فلم ”یارانا“ میں اس گیت کو دوبارہ فلمایا گیا تھا۔ اس گانے کی کاسٹ میں مشہور اداکارہ مادھوری ڈکشٹ نے اداکاری کی تھی۔
یہ جو ہلکا ہلکا سرور ہے
1992 میں ریلیز کیا گیا گانا خود قوالی کے بادشاہ نصرت فتح علی خان نے ترتیب دیا تھا۔ ایشوریا رائے بچن اور راج کمار راؤ کی فلم ‘فنے خان’ میں اس گانے کی روحانی کمپوزیشن کو دوبارہ زندہ کیا گیا۔
ایوارڈ اور لقب
نصرت فتح علی خان کو وسیع پیمانے پر تاریخ کے سب سے اہم قوال کے طور پر جانا جاتا ہے، 1987 میں انہوں نے پاکستانی موسیقی میں اپنی خدمات کے لئے پرائڈ آف پرفارمنس کے لئے صدر پاکستان سے ایوارڈ حاصل کیا۔
1995 میں، انہیں یونیسکو میوزک پرائز ملا۔ سنیما کے فن میں غیر معمولی شراکت کے لئے 1996 میں انہیں مونٹریال ورلڈ فلم فیسٹیول میں گراں پری ڈیس اموریکس سے نوازا گیا۔
1997 میں، وہ دو روایتی ایوارڈ، بہترین روایتی لوک البم اور بہترین ورلڈ میوزک البم کیلئے دو گریمی ایوارڈز کے لئے نامزد ہوئے۔
2001 تک، انہوں نے ”زیادہ قوالیوں“ کی ریکارڈنگ کے سبب گینز ورلڈ ریکارڈ اپنے نام کرلیا تھا، اپنی وفات سے قبل 125 قوالیوں کے البمز ریکارڈ کیے۔
نصرت فتح علی خان کو اپنے والد کی وفات کی برسی کے موقع پر لاہور میں ایک تقریب میں کلاسیکی موسیقی پیش کرنے پر استاد (ماسٹر) کا لقب دیا گیا۔
موت
جگر اور گردے کی تکلیف کے علاج کے باعث انہیں لندن کے کروم ویل اسپتال میں داخل کرایا گیا تھا۔ جہاں وہ فانی دنیا کو خیر باد کہہ گئے۔
استاد نصرت فتح علی خان کی میت کو فیصل آباد لایا گیا، جہاں انہیں کبوتراں والا قبرستان میں دفن کیا گیا، فیصل آباد کے جھنگ روڈ پر موجود قبرستان کو جھنگ روڈ قبرستان بھی کہا جاتا ہے۔