اسلام آباد:پاکستان بالخصو ص صوبہ خیبر پختونخوا میں خواجہ سراؤں کیخلاف جنسی و جسمانی تشدد کیساتھ ساتھ قتل کے واقعات میں اضافہ تشویشناک ہے،خواجہ سرا برادری کے حقوق کا تحفظ ہماری مشترکہ ذمہ داری ہے۔
خواجہ سراؤں کے حقوق کی تنظیم ٹرانسجینڈر رائٹس کنسلٹنٹس پاکستان کی ایگزیکٹو ڈائریکٹرنایاب علی نے ٹرانسجینڈر کے عالمی دن کے حوالے سے ایم ایم نیوز سے خصوصی گفتگو کی، اُن کا کہنا تھا کہ کے پی کے میں گذشتہ تین برسوں کے دوران 97 خواجہ سراؤں کو قتل کر دیا گیا ہے،مگر کسی ایک بھی قاتل کو سزا نہیں دی جاسکی ہے۔
انہوں نے حکام بالا سے اپیل کی کہ ٹرانسجینڈر رائٹس پروٹیکشن ایکٹ 2018 کے مطابق تحفظ مراکز کا قیا م عمل میں لایا جائے، خواجہ سراؤں کے خلاف جرائم میں ملوث افراد اور گروہوں کیخلاف سخت کارروئی کی جائے تاکہ انصاف کے تقاضے پورے کئے جاسکیں کیونکہ جب تک خواجہ سراؤں کے مسائل پر توجہ نہیں دی جائیگی معاشرے کی تشکیل مکمل نہیں ہوگی۔
خواجہ سراؤں کے عالمی دن کے موقع پر نیشنل پریس کلب اسلام آباد میں ممتاز سماجی کارکن فرزانہ باری، خواجہ سراکمیونٹی کے پی کے کی صدر فرزانہ جان، صدر مانسہرہ مس نادرہ، صدر راولپنڈی صباگل اور نایاب علی کا کہنا تھا کہ پاکستانی معاشرے میں خواجہ سرا کا نام گالی کی علامت بن گیا ہے حالانکہ خواجہ سرا بھی معاشرے میں ڈاکٹر، وکیل سمیت تمام شعبہ ہائے زندگی میں اپنی خدمت سرانجام دے رہے ہیں۔
اس موقع پر ممتاز سماجی کارکن ڈاکٹر فرزانہ باری نے کہا کہ ہمارے ریاستی ادارے خواجہ سراؤں کو تحفظ دینے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکے ہیں،خواجہ سرا بھی پاکستانی شہری ہیں اور انکے حقوق کا تحفظ ہم سب کی مشترکہ ذمہ داری ہے، حکومت کو چاہیئے کہ خواجہ سراؤں کیلئے آواز اٹھانے کیلئے انہیں پارلیمنٹ میں بھی نمائندگی دی جائے۔
مزید پڑھیں: مانسہرہ میں نامعلوم افراد نے 5 خواجہ سراؤں کو گولیاں مار دیں