مصطفی کمال کابلدیاتی ترمیمی قانون کیخلاف 30 جنوری کو عوامی مارچ کا اعلان

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Mustafa Kamal announces public march on January 30 against LG Amendment Act

کراچی: چیئرمین پاک سر زمین پارٹی سید مصطفی کمال نے بلدیاتی ترمیمی قانون کے خلاف 30 جنوری بروز اتوار تبت سینٹر سے وزیر اعلیٰ ہاؤس کی جانب عوامی مارچ کا اعلان کردیا۔

30 جنوری کو ہمیں روکا گیا تو پیپلزپارٹی کی صوبائی حکومت جان لے کہ ہم آدمی ہیں تمہارے جیسے، جو تم کرو گے وہ ہم کریں گے۔ عوام 30 جنوری کو بڑی تعداد میں اپنے حق کی خاطر نکلیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پاکستان ہاؤس میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ اس موقع پر صدر پی ایس پی انیس قائم خانی سمیت دیگر مرکزی عہدیداران بھی موجود تھے۔

سید مصطفی کمال نے مزید کہا کہ پیپلز پارٹی نے عددی اکثریت کی بنیاد پر نئے بلدیاتی ترمیمی قانون کے زریعے اپنا الیکشن کمیشن بنا رکھا ہے جو کہ آرٹیکل 140(2)A کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اس سے قبل 2013 کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں پیپلز پارٹی نے الیکشن کمیشن آف پاکستان سے لفظ پاکستان ہٹا دیا تھا اور آج پیپلز پارٹی نے 2021 کے ترمیمی ایکٹ سے پورا الیکشن کمیشن کا لفظ ہی نکال دیا ہے جبکہ نئے سندھ لوکل گورنمنٹ ترمیمی قانون کو پیپلز پارٹی اسمبلی میں پیش کیے بغیر محض ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے لوکل گورنمنٹ قانون میں مزید تبدیلی کرسکے گی جو اس آئین پاکستان کیساتھ بھونڈا مذاق ہے جو خود پیپلز پارٹی کے بانی ذوالفقار علی بھٹو نے دیا تھا۔

پیپلز پارٹی صوبائی وزارتوں کے ساتھ ساتھ اب شہری حکومت کے اوپر بھی قبضہ کر رہی ہے۔2001 میں بلدیاتی حکومت کے اختیار میں 47 محکمے تھے لیکن اب صرف 21 رہ گئے ہیں۔ ایک ایک کرکے سارے محکمے سندھ حکومت قبضہ کر چکی اور ان تمام محکموں کو کرپشن کا گڑھ بنا دیا ہے۔

سندھ میں 70 لاکھ سے زائد بچے سکولوں سے باہر ہیں جو کئی ممالک کی کل آبادی سے زیادہ ہیں، پیپلز پارٹی نے صرف تعلیم کی مد میں 2300 ارب روپے خرچ کیے، آج سندھ میں ہزاروں گھوسٹ اسکولز اور لاکھوں گھوسٹ ٹیچرز ہیں جسے تمام بین الاقوامی ایجنسیوں نے رپورٹ کیا۔

نئے تعلیمی ادارے کھلنے کے بجائے سرکاری اسکولوں کو بند کیا جارہا، سندھ میں سرکاری اسکولوں کی عمارتوں کو فلاحی اداروں کو ٹھیکے پر دیا جارہا ہے۔

سندھ میں ایک نئی لائن پینے کے پانی کی نہیں ڈالی گئی، کراچی کے شہری سے لیکر تھر پارکر کے دیہی علاقوں تک لوگ بوند بوند پانی کو ترس رہے، سندھ حکومت کے خلاف کوئی آواز اٹھائے تو سرے عام گولیاں چلاکر قتل عام کیا جاتا ہیں ۔آج بھی ام رباب اور ناظم جوکھیو کے لواحقین عدالتوں سے انصاف مانگتے پھر رہے ہیں۔

پیپلز پارٹی نے سندھ کو اپنی زاتی ریاست بنالیا ہے، وہ سندھ میں جمہوری حکومت نہیں بلکہ اپنی ریاست چلا رہے ہیں۔ تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے اپنی حکومت چلانے کے لئے زرادی صاحب کو سندھ میں کھلی چھوٹ دے دی ہے۔

نئی حلقہ بندیاں ہوں، نئے ڈسٹرک کا قیام ہو، نئے ٹاؤن بنانے کی بات ہو تو سندھ حکومت لسانی تعصب کے تحت تمام کام سر انجام دیتی ہے، سندھ کا وزیر اعلیٰ انتہائی متعصب سیاست کے حامی ہیں۔ وہ تمام اختیارات اپنے ہاتھ میں رکھ کر تماشہ دیکھ رہے ہیں۔

مزید پڑھیں:چینی، کھاد، ایل این جی، ادویات مافیا عمران خان کے اپنے اے ٹی ایمز ہیں، سعید غنی

اگر سندھ حکومت شہری حکومت کے معاملے میں مداخلت کر سکتی ہے تو پھر سندھ پاکستان کا صوبہ ہے، وفاقی حکومت مداخلت کرئے اور شہریوں کو بچائے۔ ریاستی اداروں کو مطلع کرتا ہوں اہلیان کراچی کے ساتھ بہت ظلم اور زیادتی ہوچکی اب مزید برداشت نہیں ہوگا۔

سندھ حکومت کو لگام دینے کا وقت آگیا۔ جمہوریت کا مطلب یہ نہیں ہے آپ نہ آئین پاسداری کریں، نہ اداروں کی پاسداری کریں اور اپنی مرضی اور فائدے کے قانون بناتے چلے جائیں، پاک سر زمین پارٹی پاکستان کو بچانے کی خاطر جہاد کررہی ہے اور اپنے خون کا آخری قطرہ تک گرائے گی۔

انہوں نے میں اہلیان کراچی سے کہتا ہوں آؤں میرا ساتھ اور اس لسانی حکومت کے خلاف کھڑے ہوں تاکہ ہم اپنے سندھی بھائیوں کو بھی اس ظلم سے نجات دلائیں بس اب اس شہر کا ہر آدمی باہر نکلے چاہے وہ پنجابی، پختون، بلوچ، سندھی، مہاجر ہوں سب کو نکلنا ہوگا، میں پاکستان کی ہر سیاسی پارٹی کے کارکنان سے کہتا ہوں اپنی قیادت سے سوال کریں کہ آپکے علاقے میں بہتری کیلئے وسائل نیچے منتقل کیوں نہیں کرتے۔

ہم 30 جنوری کو بتا دیں گے کہ جب باکردار اور قابل قیادت سامنے کھڑی ہوجائے تو ظالم کا وقت ختم ہو جاتا ہے اور پیپلز پارٹی کے ظلم کا وقت اب ختم ہوتا ہے۔

Related Posts