گزشتہ شب ڈرامہ سیریل آخر کب تک اختتام کو پہنچا جس کے آغاز سے لے کر اختتام تک روایتی پاکستانی دماغوں کو ایسے متعدد اسباق سکھائے گئے جن کا ہمیں شکریہ ادا کرنا ہوگا۔
پاکستانی شوبز انڈسٹری کے معروف اداکار عدیل حسین، اُشنا شاہ، ارم اختر، اظفر رحمان، جویریہ عباسی، ہارون شاہد، شہود علوی، گل رعنا اور صباحت بخاری سمیت دیگر نے ڈرامہ سیریل آخر کب تک میں اداکاری کے جوہر دکھائے اور داد بھی وصول کی۔
زیادہ تر پاکستانی ڈراموں میں ایسے کردار نایاب ہوتے جارہے ہیں جنہیں سراہا جائے، تاہم اشنا شاہ نے نور کا کردار ادا کرکے مداحوں کے دل جیت لیے۔ یہ کردار مداحوں ک دلوں پر گہری چھاپ چھوڑ گیا۔ ڈرامے کا اختتام مثبت پیغام پر ہوا جو لائقِ تحسین ہے۔
صنم سعید نے فواد خان کے ہمراہ ویب سیریز میں اداکاری پر خاموشی توڑ دی
بھارت کے 58سالہ فنکار گووندا اداکاری کا کام دینے پر بالی ووڈ کے شکرگزار
دوسری جانب ڈرامہ سیریل آخر کب تک میں ہمارے معاشرے کا تاریک پہلو بھی بے نقاب کیا گیا اور روزمرہ زندگی کیلئے بہت سے اسباق سیکھنے کو ملے جن میں سے 5 ایسے سبق یہاں بیان کیے جارہے ہیں جنہیں جاننا مفید ثابت ہوسکتا ہے۔
اپنی زبان خود کھولنا ہوگی

ایک معروف ضرب المثل ہے کہ آدمی کو تعلیم دینا، آدمی کو تعلیم دینا ہے جبکہ ایک خاتون کو تعلیم دینا پوری نسل کو پڑھانا ہے۔ یقین کریں یا نہ کریں، فجر جیسی بہت سی لڑکیاں پاکستان میں رہتی ہیں لیکن کسی لڑکی کو درست تربیت دینا معاشرہ سدھار سکتا ہے۔
خاص طور پر جب لڑکیوں کو یہ تعلیم دی جائے کہ اپنے حق کیلئے خواتین کو خود آواز اٹھانا ہوگی کیونکہ معاشرہ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے اصول پر چلتا ہے۔ خاموش رہنے سے تبدیلی نہیں آسکتی۔ آخری قسط میں فجر نے ناظرین کی آنکھیں کھول دیں۔
شادی کیلئے رضامندی کی اہمیت

بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ شادی کیلئے لڑکے اور لڑکی کی رضامندی ضروری نہیں جبکہ ہمارے ڈراموں میں بھی رومانوی محبت کا تصور مختلف ہوتا ہے جو مشروط، مادی بنیادوں پر استوار اور سمجھوتوں سے بھرپور ہوا کرتی ہے۔
اگر خواتین اپنے شریکِ حیات کو کسی بات سے انکار کریں تو اسے کوئی دانش مندانہ فیصلہ نہیں سمجھا جاتا اور نئی مصیبتیں جنم لینے لگتی ہیں تاہم ڈرامہ سیریل آخر کب تک میں ایسے حساس موضوع کو بھی متاثر کن انداز میں بیان کیا گیا۔
نور کی ضرورت

نور کے کردار کے بغیر یہ ڈرامہ سیریل ادھورا ہے۔ نہ صرف یہ مرکزی کردار اپنی بہن کی دوست بلکہ اس کی مشاورت کار اور حمایتی شخصیت بھی بنتا ہے۔ وہ فیکٹری کا کنٹرول سنبھالتی ہے جبکہ اس کے والد مفلوج ہوچکے ہوتے ہیں۔
مفلوج والد کی فیکٹری سنبھالنے والی بیٹی کو اب اس بات کی پروا نہیں رہتی کہ لوگ کیا کہیں گے۔ نور بے خوف ہوجاتی ہے۔ اسے معلوم ہوتا ہے کہ کیا صحیح ہے اور کیا غلط اور اگر کوئی مسائل پیدا ہوتے بھی ہیں تو وہ ان سے نمٹنا جانتی ہے۔
تکلیف دہ رشتوں کے اثرات

آخر کب تک میں سب کچھ نظر آتا ہے۔ اس میں خواتین کو بااختیار بنانے کی باتیں ملتی ہیں۔ میاں بیوی میں ہم آہنگی و مطابقت کی ضرورت ہو یا گھریلو تشدد، جنسی زیادتی، ذہنی صحت اور تکلیف رشتے، سب معاملات پر مناسب انداز سے روشنی ڈالی گئی۔
فجر کے کردار کو ذہنی دباؤ کا شکار دکھایا گیا جو بات کرتے ہوئے کانپنے لگ جاتی ہے اور اس کا کزن بسام جو بعد میں معافی مانگتا ہے، اس کی شخصیت کے ان مسائل کا ذمہ دار ہوتا ہے جبکہ فجر کی ماں کا اسے چپ رکھنے اور سچ نہ بولنے دینے کیلئے کردار اہم ہوتا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے معاشرے میں لڑکیوں کو ایسی ہی فضا میں پروان چڑھایا جاتا ہے اور وہ سچ نہیں بول سکتیں۔ تاہم درست سمت ملنے سے ہی قسمت بدلتی ہے، اعتماد بڑھتا ہے اور ذہنی صحت کی صورتحال بہتر ہوجاتی ہے جو ڈرامے میں نظر آیا۔
والدین کا کردار
