کراچی:پاکستان پیپلز پارٹی کے کراچی میں گڑھ میں شہید محترمہ بے نظیر بھٹو لیاری یونیورسٹی میں غیر قانونی تعینات ہونے والے وائس چانسلر ڈاکٹر اختربلوچ نے مبینہ طور پر غیر قانونی بھرتیوں کے بعد غیر قانونی ترقیوں کی بھی تیاری کرنا شروع کردی ہے۔
26 نومبر2019 میں سندھ کابینہ کے اجلاس میں وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ کے زیر صدارت اجلاس منعقد ہو اتھا،جس میں دیگر اہم فیصلوں کے ساتھ سندھ کی سرکاری جامعات میں گریڈ ایک سے گریڈ 22 تک کی بھرتیوں کااختیار وزیر اعلیٰ سندھ کو دیا گیا تھا، جس کی اجازت کے بغیر کسی بھی ڈیپارٹمنٹ میں بھرتیاں نہیں کی جاسکتیں۔
اس حوالے سے یونیورسٹیز ایند بورڈ ڈیپارٹمنٹ کے سیکشن آفیسر کمال احمد نے تمام جامعات کے نام 27 نومبر2019 کو وائس چانسلر کے نام ایک خط بھی لکھا تھا، جس میں واضح طور پر کیا گیا تھا کہ سندھ کابینہ کی مظوری کے بعد اسکیل ایک سے گریڈ 22 کی تمام تر بھرتیوں کا اختیار وزیر اعلیٰ کے پاس ہے۔
جس کی مظوری کے بغیر پبلک سیکٹر کی جامعات میں کوئی بھرتی نہیں ہو سکتی۔ بصورت دیگر کسی بھی قسم کی حکم عدولی کی صورت میں قانونی اور ادارہ جاتی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
حیرت انگیز طور پر جامعہ لیاری کے وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ نے رولز کے برعکس عارضی 6ماہ کے کنٹریکٹ پربراہ راست ڈاکٹر اختر خلیلی کو بغیر اجازت کے پروفیسر بھرتی کر لیا ہے۔
دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے احکامات کے مطابق کسی بھی فیکلٹی ممبر کو انتظامی عہدہ نہیں دیا جا سکتا، جس کے باوجود ڈاکٹر اختر بلوچ نے پروفیسر اختر خلیلی کو نہ صرف بھرتی کیا بلکہ بھرتی کے چند روز بعد ان کو رجسٹرار کا اضافی عہدہ بھی دے دیا۔
ذرائع کے مطابق یہ تمام تر بھرتیاں وائس چانسلر ڈاکٹر اختر بلوچ پہلے بھی کرتے رہے ہیں، اسامیوں کو مشتہر کئے بغیر ہی اپنے متعدد قریبی عزیز بھی بھرتی کر لئے ہیں۔
جس میں ان کے بھائی، داماد، بھانجے، بھتیجے اور ماموں بھی شامل ہیں، جس کی انکوائری نیب میں بھی جاری ہے، اور تمام تر الزامات کے باوجود ڈاکٹر اختر بلوچ اب بھی اس قسم کی غیر قانونی بھرتیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
ذرائع کے مطابق اگلے ماہ تین اور چار دسمبر کو بھی ایک سلیکشن بورڈ کروانے کی تیاری کی گئی ہے، جس میں اپنے من پسند فیکلٹی ممبرز کو بطور اسٹنٹ پروفیسر اور ایسوسی ایٹ پروفیسر مقرر کیا جا رہا ہے۔
اور ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے احکامات کے مطابق امیدواروں کی اسسٹنٹ پروفیسر کیلئے کم از کم PHD کی ڈگری کا ہونا لازم ہے، مگر احکامات کو ہوا میں اڑا کر ایم فل کرنے والے امیدواروں کو ہی نوازا جا رہا ہے اور ان امیدواروں کے نام بھی فائنل کر دیئے گئے ہیں۔
جو میرٹ پر سوالیہ نشان ہے کہ سلیکشن بورڈ کی باز گشت شروع ہوتے ہی امیدواروں کے نام سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں اور سفارشیں بھی دیگر ذرائع بھی استعمال ہونا شروع ہو گئے ہیں۔
ایسوسی ایٹ پروفیسر کے امیدواروں میں کمپیوٹر سائنس کے ڈاکٹر مظہر ابڑو اور شعبہ کمپیوٹر سائنس کے ڈاکٹر ظفر شیخ، شعبہ آئی ٹی سے ڈاکٹر شفیق اعوان، شعبہ اسلامیات سے گلناز نعیم اور شعبہ کامرس سے سلمان ثروت اور عمیر بیگ شامل ہیں۔
اسسٹنٹ پروفیسر کے امیدواروں میں شعبہ انگریزی سے شگفتہ خرم، شازیہ شاہ، ثاقب سومرو اور بزنس ایڈمنستریشن ڈیپارٹمنٹ سے سعدیہ شیخ، منیر عباسی، کے علاوہ شعبہ سوشیالوجی سے ساجن کھوکھر، ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ کی سفیہ نیازی،صائمہ کے علاوہ شعبہ مطالعہ پاکستان سے عبدالرحیم شر سرفہرست ہیں۔
مزید پڑھیں: مہران انجینئرنگ اور اللہ بخش یونیورسٹی میں غیر قانونی تعیناتیاں ختم کرنے کا حکم