عدالتی فیصلوں کا احترام واجب لیکن لوگوں کے گھرنہیں گراؤں گا،سعید غنی

مقبول خبریں

کالمز

Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟
Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

saeed ghani media talk outside the sindh assembly

کراچی :وزیر اطلاعات و محنت سندھ سعید غنی نے کہا ہے کہ عدالتی فیصلوں کو ماننے کے پابند ہیں لیکن اگر کوئی ایسا فیصلہ آجائے اور مجھے کہا جائے کہ آپ اس پر عمل درآمد کریں، جس کے نتیجہ میں کوئی انسانی المیہ جنم لے سکتا ہو تومیں اپنے عہدوں کو چھوڑ دوں گا اور اپنے لوگوں کے ساتھ جاکر کھڑا ہوجاؤں گا۔

ان خیالات کا اظہار انہوں نے بدھ کے روز سندھ اسمبلی کے میڈیا کارنر پر میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ سعید غنی نے کہا کہ قانون کے مطابق وزیر اعظم یا ان کے نمائندے کو وزیر اعلیٰ یا ان کے نمائندے کو پرپوزل بھیجنا ہوں گے لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور براہ راست نوٹیفکیشن کے زریعے چار افسران کو بلایا گیا۔

سندھ کابینہ نے اس نوٹیفیکیشن کو پرپوزل کے تحت لیتے ہوئے  فیصلہ کیا اور اس سے وزیر اعلیٰ سندھ نے وفاق کو آگاہ کردیا ہے۔

سعید غنی نے کہا کہ ہمیں 20 گریڈ کے 67 افسر آنے چاہیے  تھے۔ ہم ارے پاس 48 کی کمی تھی اور اب 4 ہم نے وفاق کیے بھیجے گئے افسران کو رکھ لیا ہے، جس کے بعد اب شارٹیج 44 ہیں۔انہوں نے کہا کہ سندھ میں 20 گریڈ کے پولیس افسران کی 26 پوزیشن ہیں 22 پولیس افسر سندھ میں کام کررہے تھے۔ان میں 7 کو واپس بلایا تھا۔اس پر کابینہ نے فیصلہ کیا تھا کہ 8 جو بھیجے گئے ہیں۔ان میں سے چار کو رکھ لیں گے باقی 4 کو واپس کردیں گے اور 7 جو واپس وفاق نے مانگے ہیں اس تجویز کو کابینہ نے مسترد کردیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے درخواست کی تھی کہ اختلاف وفاق اور صوبے کا کوئی معاملہ ہے، اس میں کسی افسر کا کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

اسٹیبلشمنٹ ڈویژن اس حوالے سے پی ایس پی افسران کو تنگ نہ کرے لیکن وفاق نے اس کو وضاحتی لیٹربھیجے ہیں۔ہم اس کی مذمّت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ اس لیٹر کو واپس لیا جائے اور وزیر اعلیٰ سندھ کے خط پر عمل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ امن و امان صوبائی حکومت کی مکمل ذمہ داری ہے۔اگر ان افسران کو بھیج دیں گے۔تو ہمارے امن و امان کی صورتحال پر فرق پڑے گا۔سعیدغنی نے کہا کہ گذشتہ روز وفاقی کابینہ میں عجیب بات کی ہے کہ سندھ میں 16 لاکھ ٹن گندم چوری ہوئی ہے۔اس پر سندھ حکومت تحقیقات کرے۔

انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس میں یہ بے بنیاد بات معلوم نہیں کس نے کی۔انہوں نے کہا کہ وفاقی کابینہ میں وزیر اعظم سمیت ان کے وزراء بعض اوقات ایسی ایسی بے تکی باتیں کرجاتے ہیں جس سے ملک کا تماشہ بنتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اجلاس کے بعد ایک پریس ریلیز کے زریعے سندھ حکومت سے اس حوالے سے تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا۔

سعید غنی نے کہا کہ سندھ نے 12 لاکھ میٹرک ٹن گندم پروکیومنٹ کی تھی تو 16 لاکھ ٹن گندم چوری کیسے ہوگئی۔انہوں نے کہا کہ میں بار بار مطالبہ کرچکا ہوں کہ وفاقی حکومت ان  66 لاکھ ٹن گندم کو ڈھونڈے، جس کا اظہار فخر امام صاحب جو کہ فوڈ سیکورٹی کے وزیر ہیں اور انہوں نے اسمبلی کے فلور پر کہا تھا کہ ہمیں نہیں معلوم کہ یہ 66 لاکھ میٹرک ٹن گندم پنجاب سے کہاں چلی گئی ہے، اصل اس پر ہونی چاہیے تھی۔

انہوں نے کہا کہ تحقیقات شوگرکمیشن کی رپورٹ پر ہونی چاہیے تھی اور جن جن کے اس میں نام ہیں اس پر کارروائی ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ پنجاب میں 70 فیصد گندم پیدا ہوتی ہے۔پنجاب میں تو گندم کی قلت نہیں ہو نی چاہیے لیکن پنجاب کی فصل اترتے ہی ایک ماہ میں قلت ہوجاتی ہے۔میں مطالبہ کرتا ہوں کہ اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ اس کے بعد پھر جو گندم امپورٹ کی جاتی ہے اور خود میڈیا اور عوام بتا رہی ہے کہ جو گندم دی گئی ہےء وہ کھانے کے قابل بھی نہیں ہے وہ جانور بھی نہیں کھاتے ہیں وہ پاکستانیوں کو انہوں نے کھلائی۔

یہاں چینی کا بحران آیا تھا اور 150 روپے کلو چینی ہوگئی تھی اس کی تحقیقات ہونی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ گذشتہ روز خود ان کے مشیر خزانہ نے تسلیم کیا کہ ہم نے بروقت کارگو نہیں خریدے اس لئے بحران پیدا ہوا ہے۔

سعید غنی نے کہا کہ صورتحال یہ ہے کہ لوگوں کے گھروں پر گیس نہیں آرہی ہے۔ انڈسٹری کو گیس کی فراہمی نہ ہونے سے ان کے آرڈر پورے نہیں ہورہے ہیں اور منسوخ ہورہے ہیں اور اس کے باعث پاکستان کا فارن رونیو شدید متاثر ہورہا ہے۔

یہاں اتنی بڑی بڑی نالائیقوں کی سزا ہم بھگت رہے ہیں اورہمارے اور آپ کے جیبوں سے گندم کی مد میں، آٹے کی مد میں، پیٹرول و ڈیزل کی قیمتیں بڑھا کر اس کی مد میں، دوائیاں مہنگی کرکے اس کی مد میں، ہزاروں ارب روپے پاکستانیوں کی جیبوں سے اس جگادری حکومت کے اے ٹی ایم نے نکالے ہیں اور کوئی بندہ بتایا جائے، جس کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں لائی گئی ہو۔

انہوں نے کہا کہ کسی کو سزا نہیں دی گئی ہے۔ اس حکومت میں بیٹھے اس کے اے ٹی ایمز اس ملک کے عوام کو لوٹ رہے ہیں اور ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہورہی ہے۔ سعید غنی نے کہا کہ ہر بڑائی، مہنگائی اور کرائسز کا ذمہ دار سندھ حکومت کو ٹھہرا دیا جاتا ہے۔ بات یہ ہے کہ کارگو آپ نے نہیں لئے، لائن کو استعمال آپ نے نہیں کیا۔

انہوں نے کہا کہ اس نالائق اور نااہل حکومت نے مہنگائی اور لوڈشیڈنگوں کے جو عذاب چھوڑیں ہیں اس کی مثال اس ملک کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ انہوں نے کہا کہ اب ہر ماہ پیٹرول کی قیمت میں 4 روپے لیوی کے نام پر اضافے کی نوید سنادی گئی ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کا فوبیہ ان کو رات بھر سونے نہیں دیتا۔ انہوں نے کہا کہ خود وہ اس بات کو تسلیم کرچکیں ہیں کہ مراد علی شاہ ان کو ٹف ٹائم دے رہا ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ افسران کے تبادلے کے حوالے سے دلیل ہم آئین اور قانون کے تحت زمینی حقائق کے تحت دے رہے ہیں۔

ایک اور سوال پر انہوں نے کہا کہ وزیر اعلیٰ سندھ پاکستان کے ایک صوبے کا وزیر اعلیٰ ہے کسی اسرائیل یا بھارت کے کسی صوبے کا وزیر اعلیٰ تو نہیں ہے کہ آپ ان سے بات کرنا نہیں چاہتے ہیں اور نہ ان سے کسی قسم کی کوئی مشاورت کرنا چاہتے ہیں۔

میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ سراسر سندھ دشمنی ہے اور یہ سندھ کے عوام کو اس بات کی سزا دینے کے مترادف ہے کہ انہوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ کیوں دیا ہے۔ ا

یک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ سپریم کورٹ یا کسی بھی عدالتوں کے فیصلے ہمیں پسند ہوں یا نہ ہوں۔ آئینی اور اخلاقی طور پر وہ ہمیں ماننے چاہیے۔ لیکن بدقسمتی سے ہماری ملکوں کی عدالتوں سے ایسے فیصلے بھی آئے ہیں جو قابل فخر نہیں رہے ہیں اور اس کا نقصان عدالتوں کے تاثر پر پڑا ہے۔

اس میں شہید ذوالفقار علی بھٹو کو کا فیصلہ ہو یا شہید محترمہ بینظیر بھٹو کے حوالے سے فون پر آرڈر لے کر دئیے گئے۔ جو سرکاری افسران ہیں جو عدالتی مشکل فیصلوں پر عمل درآمد کرنے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ آئین پاکستان میں ججوں کا جو تصور بتایا گیا وہ  آج کل کے حوالے سے بہت مختلف ہے۔ انہوں نے کہا کہ سندھ حکومت کے لیے جو فیصلے آئے ہیں اور جو آبزرویشن آئی ہیں وہ مناسب نہیں ہیں۔انہوں نے کہا کہ عدالتیں اپنا فیصلہ سنا سکتی ہیں۔

ہم اس فیصلے کو چیلنج کرسکتے ہیں، اس کے خلاف اپیل میں جاسکتے ہیں، اس پر اپنی رائے دے سکتے ہیں، لیکن ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ ہم اس فیصلے کو نہیں مان سکتے ہیں۔ایک سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ عدالتی فیصلوں کو ماننے کے ہم پابند ہیں، لیکن اگر کوئی ایسا فیصلہ آجائے اور مجھے کہا جائے کہ آپ اس پر عمل درآمد کریں، جس کے نتیجہ میں کوئی انسانی المیہ جنم لے سکتا ہو،  جس کے نتیجہ میں اس صوبے کہ اس شہر کے لاکھوں لوگوں کے گھروں کی چھتیں جاسکتی ہوں اس پر میں قائم ہوں کہ میں اپنے عہدوں کو چھوڑ دوں گا اور اپنے لوگوں کے ساتھ جاکر کھڑا ہوجاؤں گا۔

انہوں نے کہا کہ کچھ روز قبل پیپلز پارٹی کے ارکان اسمبلی نے ایک قرارداد کے ذریعے سندھ حکومت سے اس حوالے سے قانون بنانے کی استدعا کی گئی تھی۔

مزید پڑھیں:

کراچی کی تباہی برسوں کا نوحہ

کراچی میں تجاوزات کیخلاف بڑا آپریشن، سیکڑوں مکانات گرانے کا فیصلہ

عدالت عظمیٰ نے گلی محلوں میں تجاوزات کے خاتمے کا حکم دے دیا

جعلی لیز پر قائم مکانات، کمرشل تعمیرات، تجاوزات پرتمام حکم امتناع ختم

اس قرارداد پر ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی نے اس کی مخالفت کی اور باہر وہ نسلہ ٹاور اور گجر نالے کے متاثرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کا ڈرامہ کرتے ہیں۔  

انہوں نے کہا کہ پنجاب میں غیر قانونی ہاؤسنگ سوسائٹیز تھی اس کو ریگولائیز کرنے کے لئے قانون بنایا گیا ہے، وہاں ایک کمیشن بنایا گیا ہے اور وہی کام جو ہم یہاں کرنا چاہتے ہیں وہ پنجاب کی حکومت نے کیا ہے، اگر وہاں یہ کام ہوسکتا ہے اور پی ٹی آئی کی حکومت وہ قانون وہاں بنا سکتی ہے تو پنجاب میں وہ قانون حلال اور یہاں حرام کیسے ہوسکتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہم وہ کام کرنا چاہتے ہیں، جس سے اس صوبے اور بالخصوص کراچی کے لاکھوں افراد کا مفاد اس سے وابستہ ہے،۔

ایک اور سوال کے جواب میں سعید غنی نے کہا کہ کراچی شہر میں خاص طور پر رفاعی پلاٹس اور گراؤنڈ پر چائنا کٹنگ ایم کیو ایم کے کارنامے ہیں اور اس کا سب کو اچھی طرح علم ہے۔ ایک سوال پر انہوں نے کہا کہ یہ قانون صوبے اور شہر میں رہنے والے ہر شخص کے لئے ہے جس کے سر پر تلوار لٹک رہی ہے۔

وزیر اطلاعات سندھ نے کہا کہ تمام صوبوں کی نسبت سندھ حکومت بلدیاتی نظام کو زیادہ سپورٹ کرتی رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ واحد صوبہ سندھ ہے جس نے بلدیاتی نمائندوں کی آئینی اور قانونی مدت پوری کی ہے۔ آئین کے مطابق جب جب نئی مردم شماری ہوگی نئی حلقہ بندیاں ہوں گی اور پھر انتخابات ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ سندھ کی مردم شماری پر ہمارے شدید تحفظات تھے اور معاملہ سی سی آئی کے متنازعہ فیصلے کو معاملہ پارلمنٹ کے جوائنٹ سیشن میں لانے کو لکھا لیکن اسپیکر قومی اسمبلی نے رولز کے برخلاف کسی ممبر کو ریفرنس کی کاپی نہیں دی اور اب ہونے والے متنازعہ جوائنٹ اجلاس میں اس کو منظور کرلیا۔ قانون میں ترمیم ہم یکم دسمبر سے پہلے مکمل کرکے الیکشن کمیشن کو بھیج دیں گے۔  

Related Posts