کمسن مجاہد راشد منہاس شہید کا 49واں یومِ شہادت اور جذبۂ حب الوطنی

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کمسن مجاہد راشد منہاس شہید کا 49واں یومِ شہادت اور جذبۂ حب الوطنی
کمسن مجاہد راشد منہاس شہید کا 49واں یومِ شہادت اور جذبۂ حب الوطنی

آج پاکستان بھر میں پاک فوج کے عظیم سپاہی اور قوم کے کمسن مجاہد راشد منہاس شہید کا 49واں یومِ شہادت ملی جوش و جذبے سے منایا جارہا ہے جبکہ اِس موقعے پر جذبۂ حب الوطنی ایک بار پھر زندہ ہوگیا ہے۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر راشد منہاس شہید، شہید ہمارا فخر ہیں اور نشانِ حیدر آج کے ٹاپ ٹرینڈز ہیں جس سے پتہ چلتا ہے کہ وطنِ عزیز کی سلامتی کیلئے جان دینے والے راشد منہاس کی ہماری نظر میں اہمیت آج بھی بے مثال ہے۔

غور طلب بات یہ ہے کہ نشانِ حیدر پاک فوج کے ہر شہید ہونے والے آفیسر یا جوان کو نہیں ملتا بلکہ اِس کیلئے زبردست جرات اور بہادری کا مظاہرہ اولین شرط قرار دیا جاتا ہے۔ شہادت اِس کی شرط نہیں لیکن حیرت انگیز طور پر پاک فوج کے نشانِ حیدر رکھنے والے تمام ہی سپاہی وطن کی حرمت پر قربان ہوچکے ہیں۔

آئیے راشد منہاس شہید کے 49ویں یومِ شہادت کے موقعے پر یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسی کیا ضرورت آن پڑی تھی کہ 20 سالہ نوجوان پائلٹ آفیسر راشد منہاس اپنے انسٹرکٹر مطیع الرحمٰن کو بھارت جانے سے روکنے کیلئے اپنی جان دینے سے بھی پیچھے نہ ہٹے۔

نشانِ حیدر کیا ہے؟

پاکستان کا سب سے بڑا فوجی اعزاز نشانِ حیدر کہلاتا ہے جو جنگ کے دوران دشمن سے قبضے میں لیے گئے اسلحے کو پگھلا کر تیار کیا جاتا ہے جس میں 20 فیصد سونا استعمال ہوتا ہے۔ اب تک پاک فوج کے 10 افسران نشانِ حیدر کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں۔

حضرت علی کرم اللہ وجہ کی شجاعت وبہادری دینِ اسلام میں ایک ناقابلِ فراموش مثال ہے جس کی یاد میں سب سے بڑے پاکستانی فوجی اعزاز کا نام نشانِ حیدر رکھا گیا۔ راشد منہاس شہید سب سے کم عمر آفیسر ہیں جنہوں نے یہ اعزاز اپنے نام کیا۔ 

راشد منہاس شہید کون تھے؟

سن 1951ء میں 17 فروری کے روز شہرِ قائد میں آنکھ کھولنے والے راشد منہاس شہید نے جمعۃ المبارک کے روز 20 اگست 1971ء میں شہادت پائی اور حب الوطنی کی وہ داستان رقم کی جسے رہتی دنیا تک یاد رکھا جائے گا۔

نشانِ حیدر جیسا اعزاز پانے والے راشد منہاس ایک راجپوت گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ انہوں نے اپنے خاندان کے متعدد افراد کی طرح پاک فوج میں شمولیت اختیار کی۔ 

آج بھی جب پاک فوج کا کوئی جوان راشد منہاس کی شہادت کا واقعہ پڑھتا ہے تو اس کے دل میں وطن کیلئے جان دینے کا جذبہ تقویت پکڑ لیتا ہے۔ راشد منہاس شہید ملٹری ہسٹری ڈپارٹمنٹ جامعہ کراچی سے ماسٹرز کی ڈگری لینے کے بعد 13 مارچ 1971ء میں پاک فضائیہ میں بھرتی ہوئے۔

انسٹرکٹر مطیع الرحمٰن اور راشد منہاس

بیس سالہ کمسن راشد منہاس کا تقرر ائیر فورس میں کمیشنڈ جی ڈی پائلٹ کی حیثیت سے کیا گیا اور انہوں نے 20 اگست کے روز اڑان بھری جس سے قبل ان کے انسٹرکٹر مطیع الرحمٰن نے انہیں طیارہ روکنے پر مجبور کردیا۔

ابھی راشد منہاس نے انسٹرکٹر کے حکم پر طیارہ روکا ہی تھا کہ انسٹرکٹر کا اگلا قدم ان کیلئے باعثِ حیرت بن گیا۔ مطیع الرحمٰن نے چھلانگ ماری اور راشد منہاس کے طیارے میں سوار ہوگیا۔

دوسرے کنٹرول کے ذریعے مطیع الرحمٰن نے عملاً راشد منہاس کا طیارہ اپنے قبضے میں کر لیا جس کی راشد منہاس کو کوئی توقع نہیں تھی۔ پھر بھی راشد منہاس شہید نے اس کے خلاف کوئی انتہائی قدم نہیں اٹھایا۔

اچانک راشد منہاس نے یہ دیکھا کہ مطیع الرحمٰن کے پاس کچھ دستاویزات ہیں جو وہ اپنے ساتھ طیارے میں لے آیا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ مطیع الرحمٰن سن 1971ء میں ہونے والی پاک بھارت جنگ میں بھارت کو مذکورہ دستاویزات سے فائدہ پہنچانا چاہتا تھا۔

دستاویزات میں کیا تھا؟

یہاں ملکی تاریخ کا  ایک عام قاری یہ سوال کرسکتا ہے کہ مطیع الرحمٰن کے پاس موجود دستاویزات میں ایسی کیا بات تھی جس سے بھارت کو فائدہ پہنچ سکتا جن پر راشد منہاس شہید کو تشویش ہوئی؟

دراصل جنگ کے دوران سب سے اہم چیز حکمتِ عملی ہوا کرتی ہے۔ کس جنگ میں دشمن کس طرح حملہ آور ہوگا، کس پوزیشن سے دشمن کی فوج پر کس طرح حملہ کیا جائے گا یا کس بات کا جواب کس طریقے سے دیا جائے گا، یہ قومی سلامتی کیلئے بے حد اہم معلومات ہوتی ہیں۔

انسٹرکٹر مطیع الرحمٰن ایسی ہی کچھ معلومات یا اس سے ملتی جلتی ہی کچھ باتیں بھارت تک پہنچا کر پاکستان کے ساتھ غداری کا ارتکاب کرنا چاہتا تھا جو راشد منہاس شہید نے اسے نہیں کرنے دیا۔ 

ایک ہلاک اور دوسرا شہید 

جب مطیع الرحمٰن طیارہ اڑا کر اس کو بھارت کی طرف لے جانے لگا تو راشد منہاس شہید نے پی اے ایف مسرور بیس سے رابطہ کرنے کے بعد 11 بج کر 35 منٹ پر اپنے طیارے کے اغواء سے پاک فضائیہ کو آگاہ کیا اور یہی وہ وقت تھا جب ان کے اور مطیع الرحمٰن کے درمیان لڑائی شروع ہو گئی۔

یہ ایک انتہائی پریشان کن صورتحال تھی۔ اگر راشد منہاس لڑائی کے دوران اپنی جان بچانا چاہتے تو مطیع الرحمٰن بڑی آسانی سے پاکستان کی حدود پار کرکے بھارت میں داخل ہوجاتا جس کے بعد حالات راشد منہاس کے قابو سے باہر ہوسکتے تھے۔

یہاں راشد منہاس شہید نے فیصلہ کر لیا کہ وطن سے غداری کرنے پر مطیع الرحمٰن کو اس کے انجام تک پہنچائیں گے۔ جب طیارے کا فاصلہ بھارتی سرحد سے 40 کلومیٹر رہ گیا تو راشد منہاس نے اس کا رخ زمین کی طرف کردیا۔ نتیجتاً طیارہ تیزی سے زمین سے ٹکرا کر تباہ ہوگیا۔

طیارے کی تباہی کے نتیجے میں دونوں افراد میں سے کوئی بھی زندہ نہ بچ سکا۔ مطیع الرحمٰن وطن سے غداری کے جرم میں ہلاک اور راشد منہاس مادرِ وطن کے مفادات کا تحفظ کرتے ہوئے شہید ہوچکے تھے۔ راشد منہاس کی قربانی وطن کیلئے انمول ثابت ہوئی لیکن مطیع الرحمٰن کی غداری اسے کوئی فائدہ نہ پہنچا سکی۔ 

بعد ازشہادت کیا ہوا؟

سیسل چوہدری کے مطابق راشد منہاس کی شہادت کے بعد انہیں جائے حادثہ پر تحقیقات کیلئے بھیجا گیا۔ جب سیسل چوہدری وہاں پہنچے تو انہیں محسوس ہوا کہ جہاز کے کاک پٹ کا نوکدار حصہ زمین سے پہلے ٹکرایا۔

کاک پٹ کے نوکدار حصے کے زمین سے پہلے ٹکرانے کے باعث پہلے راشد منہاس کی شہادت واقع ہوئی اور ان کا جسم سیٹ بیلٹ باندھنے کے باعث سیٹ پر ہی موجود تھا۔ دوسری جانب مطیع الرحمٰن جہاز سے کچھ فاصلے پر جھاڑیوں میں کٹے پھٹے اور مردہ جسم کے ساتھ موجود تھا۔

شواہد سے سیسل چوہدری کو یہ علم ہوا کہ جب راشد منہاس اور مطیع الرحمٰن کے درمیان جہاز کا کنٹرول قابو میں کرنے کیلئے ہاتھا پائی ہوئی تو راشد منہاس نے جہاز کی کینوپی اتار کر پھینک دی تھی جو جہاز سے کافی فاصلے پر موجود تھی۔ راشد منہاس نے مطیع الرحمٰن کو طیارے سے گرانے کیلئے وہ کینوپی اتاری تھی۔ 

Related Posts