انصاف پسند قانون دان عاصمہ جہانگیر کی جمہوریت اور انسانی حقوق کیلئے جدوجہد

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کی تیسری برسی اور انسانی حقوق کیلئے جدوجہد
معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کی تیسری برسی اور انسانی حقوق کیلئے جدوجہد

معروف قانون دان عاصمہ جہانگیر کی وفات کو آج 3 برس مکمل ہو گئے جبکہ انسانی حقوق کیلئے جدوجہد اور جمہوریت کی حکمرانی کیلئے زندگی وقف کرنے والی خاتون سماجی رہنما کو آج بھی سیاست کے ایوانوں سے لے کر قانونی عدالتوں تک ہر جگہ یاد کیا جارہا ہے۔

عاصمہ جہانگیر ایک متنوع اوصاف کی حامل شخصیت تھیں جن کی زندگی کے مختلف پہلوؤں پر مختلف مخالفین نے ان کی زندگی کے دوران اور بعد میں بھی اعتراضات اٹھائے، تاہم ایک سماجی رہنما کے طور پر عاصمہ جہانگیر کی خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی۔ آئیے عاصمہ جہانگیر کی زندگی کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیتے ہیں۔

ابتدائی زندگی اور تعلیم 

تقریباً 69 سال قبل 27 جنوری 1952ء کو عاصمہ جہانگیر نے داتا کی نگری لاہور میں جنم لیا اور یہیں سے ابتدائی اور ثانوی تعلیم حاصل کی۔ لاہور کا نجی اسکول کانوینٹ آف جیزز اینڈ میری منتخب کیا گیا جہاں عاصمہ جہانگیر نے ابتدائی تعلیم حاصل کی۔

ابتدائی اور ثانوی تعلیم کے بعد اور اِس سے پہلے کہ عاصمہ جہانگیر اپنے تعلیمی سلسلے کووکالت کی طرف آگے بڑھاتیں، انہیں اپنے والد کا کیس لڑنا پڑ گیا۔ 

ملکی تاریخ کا اہم کیس 

وطنِ عزیز پاکستان کی تاریخ میں عاصمہ جہانگیر کیس کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے جس کے دوران ایک بیٹی نے اپنے باپ کو چھڑانے کیلئے کیس لڑا جس کے نتیجے میں کسی متفقہ آئین سے محروم ملک کو ایک آئین نصیب ہوا جس پر ہر سیاسی جماعت نے اتفاق کر لیا۔ 

فوجی حکمران یحییٰ خان کے دورِ حکومت میں 21 سالہ عاصمہ جہانگیر کے والد کو پابندِ سلاسل کیا گیا جس کے بعد عاصمہ جہانگیر کو میدان میں آنا پڑا۔ ابھی عاصمہ جہانگیر خود وکیل نہیں تھیں، اس لیے انہوں نے بڑے بڑے وکلاء سے کیس لڑنے کیلئے درخواست کی لیکن یحییٰ خان سے ٹکر لینے کو کوئی تیار نہ تھا۔

آئین کے تحت عدالت نے عاصمہ جہانگیر کو اجازت دی کہ اگر آپ اپنے والد کا مقدمہ لڑ سکتی ہیں تو ضرور لڑیں۔ عاصمہ جہانگیر نے نہ صرف مقدمہ لڑ کر اپنے والد کو بری کروا لیا بلکہ آمریت کو بھی غیر آئینی قرار دلوانے میں کامیاب رہیں۔

یہ بے حد اہم کامیابی تھی۔ پی پی پی کے بانی اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر ذوالفقار علی بھٹو نے مارشل لاء ختم کردیا اور آئین کی تشکیل کا حکم دیا۔ ملک کا پہلا متفقہ آئین 1973ء میں ہی مکمل ہوگیا۔ یہی وہ کیس ہے جس کے سبب عاصمہ جہانگیر کو قومی سطح پر بے حد شہرت ملی۔

منقطع تعلیمی سلسلے کی بحالی اور وکلاء تحریک

کینیئرڈ کالج برائے خواتین سے عاصمہ جہانگیر نے گریجویشن کی جس کے بعد ایل ایل بی کیلئے پنجاب یونیورسٹی جا پہنچیں۔ 1978ء میں عاصمہ جہانگیر نے ایل ایل بی مکمل کرنے کے بعد وکالت شروع کی۔

سن 1980ء میں عاصمہ جہانگیر لاہور ہائیکورٹ اور 1982ء میں سپریم کورٹ کیلئے ایک پیشہ ور وکیل کی حیثیت سے فرائض سرانجام دینے لگی تھیں۔ملکی سطح پر عاصمہ جہانگیر کو ایک زبردست وکیل تسلیم کیا جانے لگا۔

نظامِ جمہوریت کی بحالی کیلئے عاصمہ جہانگیر نے بحالئ جمہوریت تحریک چلائی اور پھر 1986ء میں جنیوا جا پہنچیں جہاں عاصمہ جہانگیر نے ڈیفنس فار چلڈرن انٹرنیشنل یعنی بین الاقوامی ادارہ برائے دفاعِ اطعال کی رکنیت اختیار کی۔ انہیں ادارے کا نائب سربراہ بنا دیا گیا۔ سن 1988ء تک وہ اس عہدے پر فرائض انجام دیتی رہیں۔

سپریم کورٹ بار کونسل میں پہلی بار جس خاتون کو صدارت کا اعزاز حاصل ہوا وہ عاصمہ جہانگیر تھیں۔ اس کے علاوہ عاصم جہانگیر نے 1993ء میں ہیومن رائٹس کمیشن کی چیئرپرسن کا عہدہ بھی سنبھالا۔

قید و بند اور اعزازات 

جب سن 80ء کی دہائی میں عاصمہ جہانگیر کا نام ایک جمہوریت پسند رہنما کی حیثیت سے لیا جانے لگا تو آمر حکمران ضیاء الحق نے 1983ء میں عاصمہ جہانگیر کو جیل میں قید کردیا۔

ایک قانون دان کے طور پر عاصمہ جہانگیر متعدد مقدمات لڑ کر بے شمار مظلوموں کو انصاف دلوا چکی تھیں۔ سماجی خدمت اور انسانی حقوق کی جدوجہد بھی اسی دوران جاری رہی۔

ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے بانی اراکین میں شامل عاصمہ جہانگیر نے ایک ویمن ایکشن فورم بھی بنایا جو صنفی امتیاز روا رکھنے والے قوانین کے خلاف جدوجہد کرتا ہے۔

جنرل (ر) پرویز مشرف نے جب چیف ایگزیکٹو آف پاکستان کا عہدہ سنبھالا تو عاصمہ جہانگیر جمہوریت کی بڑی علمبردار بن کر ان کے خلاف کھڑی ہوگئیں۔ پرویز مشرف نے جب 2007ء میں ایمرجنسی نافذ کی تو عاصمہ جہانگیر کو گھر پر ہی نظر بند ہونا پڑا۔

سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کیلئے وکلاء تحریک چلائی گئی جس میں عاصمہ جہانگیر اہم رہنماؤں میں شامل ہوگئیں۔ یہی نہیں بلکہ عاصمہ جہانگیر جنوبی ایشیائی فورم برائے انسانی حقوق کی شریک چیئرمین بھی رہیں۔

آگے چل کر 2014ء میں عاصمہ جہانگیر کو انسانی حقوق اور مشکل حالات میں پیچیدہ صورتحال کا سامنا کرنے پر رائٹ لائیولی ہوڈ ایوارڈ اور ایڈورڈ اسناؤڈن ایوارڈ دئیے گئے۔

پاک فوج اور عاصمہ جہانگیر

موجودہ ترجمان پاک فوج (ڈی جی آئی ایس پی آر) نے حال ہی میں ایک بیان جاری کیا جس میں ان کا کہنا تھا کہ فوج کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے کیونکہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

دوسری جانب پاکستان کی تاریخ میں فوجی حکمرانوں نے ایک طویل عرصے تک حکومت کی جس کے بعد عاصمہ جہانگیر جیسی سماجی رہنما جسے اپنے والد کی رہائی کیلئے وقت کے آمر حکمران کے خلاف کیس لڑنا پڑا، فوجی رہنماؤں کے خلاف ہوگئی تھیں۔

جنرل یحییٰ خان سے لے کر سابق صدر پرویز مشرف تک عاصمہ جہانگیر سب ہی فوجی حکمرانوں پر کھل کر تنقید کرتی رہیں جسے فوج پر تنقید کا نام دیا گیا۔ 

تصانیف اور وفات 

وفات سے 8 سال قبل عاصمہ جہانگیر کو ہلالِ امتیاز سے نوازا گیا۔عاصمہ جہانگیر نے حدود آرڈیننس اور چلڈرن آف اے لیسر گاڈ نامی کتابیں بھی تحریر کیں جن کا موضوع قانون سازی اور انسانی حقوق تھے۔

زندگی کے آخری برس 2018ء میں عاصمہ جہانگیر اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی میں ہیومن رائٹس پرائز کی فاتح قرار پائیں۔ جب یہ اعلان کیا جارہا تھا تو عاصمہ جہانگیر اِس دنیا میں موجود نہیں تھیں۔

اعلان اکتوبر میں کیا گیا اور عاصمہ جہانگیر اس سے بہت پہلے 11 فروری کو دل کا دورہ پڑنے کے باعث لاہور کے ایک نجی ہسپتال میں وفات پا چکی تھیں۔ آج ان کی تیسری برسی کے موقعے پر ملک بھر میں انسانی حقوق کے علمبردار انہیں یاد کر رہے ہیں۔ 

Related Posts