پاکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ ہوا ہے جس کے نتیجے میں ملک بھر میں عدم تحفظ کا احساس بڑھ رہا ہے۔ اسٹریٹ کرائمز، چوری، ڈاکے اور رہزنی کی وارداتوں نے عوام کا جینا دوبھر کردیا۔
سوال یہ ہے کہ سکیورٹی فورسز، پولیس اور رینجرز دہشت گردوں کو لگام دینے میں آخر کس حد تک کامیاب ہیں جبکہ پاکستان میں سکیورٹی کے نام پر درجنوں ادارے موجود ہیں جن میں پولیس، انسدادِ دہشت گردی اور رینجرز شامل ہیں۔
ہمارے ہاں منشیات پکڑنے کیلئے فورس الگ ہے، دہشت گردی روکنے کی الگ اور شہر میں امن و امان قائم کرنے کی فورس الگ ہے۔ ٹریفک کنٹرول کرنے والی پولیس الگ کام کرتی ہے جبکہ رینجرز کے نیم فوجی دستے الگ کام کرتے ہیں۔
اکتوبر 2023 میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 9 ماہ میں دہشت گردی کے باعث 700 سے زائد افراد شہید ہوئے جو 2022 ء کے اسی عرصے کے مقابلے میں اموات میں 19فیصد کا سنگین اضافہ ہے۔
یہ کہنا غلط ہوگا کہ سکیورٹی فورسز کے اہلکار کام نہیں کر رہے کیونکہ 9 ماہ میں خود سکیورٹی فورسز کے 386اہلکار شہید ہوئے جن میں 137 فوجی، 208 پولیس والے شامل تھے اور سکیورٹی فورسز کی اموات کل اموات کا 36فیصد بنتی ہیں۔
شہید ہونے والے سکیورٹی اہلکاروں میں 33 نیم فوجی اہلکار بھی شامل ہیں۔ 2022 میں دہشت گردی کے باعث 282سکیورٹی اہلکار شہید ہوئے تھے جبکہ دہشت گردی کے 506 واقعات پیش آئے جن میں سے 309خیبر پختونخوا میں ہوئے۔
سن 2021 کے مقابلے میں 2022ء میں دہشت گردی کم از کم 108 فیصد بڑھی اور یہ تمام تر اعدادوشمار حقائق کی سنگینی کا احساس دلاتے ہیں۔ سکیورٹی اداروں کی جانب سے ”سب اچھا ہے“ کی رپورٹ پر سوالیہ نشانات بڑھتے جارہے ہیں۔
ضروری ہے کہ دہشت گردی کے ازالے کیلئے سکیورٹی فورسز کو مضبوط کیا جائے، انہیں جدید اسلحہ اور ہتھیار فراہم کیے جائیں اور فورسز میں نیم فوجی، پولیس اور فوجی دستوں کو دہشت گردی سے نمٹنے کی جدید ترین تکنیکس سکھائی جائیں۔
ملک کے متعدد قوانین عدالتی عمل کو پیچیدہ اور طویل بنا دیتے ہیں جس کے نتیجے میں دہشت گردی کرنے والے بعض اوقات سزا سے بچ نکلتے ہیں۔ پاکستان میں دہشت گردی سے نمٹنے کیلئے قوانین کو اتنا سخت کردیا جائے کہ دہشت گرد کسی صورت بچ نہ سکیں۔
ایسے میں عدالتی نظام میں یہ اہلیت اور قابلیت بھی ہونی چاہئے کہ معصوم اور بے گناہ افراد کا خون نہ بہائیں اور انہیں ہر ممکن حد تک انصاف مہیا کیا جائے۔ دیگر ممالک سے بھی انٹیلی جنس اور سکیورٹی معاملات میں تعاون حاصل کیا جائے۔
عوام میں دہشت گردی کے خلاف شعور اجاگر کیا جائے۔ معاشرے کے بعض عناصر اپنے عقیدے سے متصادم عقائد کے مالک افراد کو قتل کرنے کو جہاد قرار دیتے ہیں۔ ایسے افراد کی حوصلہ شکنی کرنا ہوگی جبکہ معاشی ترقی بھی اس کا ایک حل ہے۔
اگر پاکستان معاشی اعتبار سے ایک مضبوط ملک ہو تو نہ صرف کوئی شخص بے روزگاری سے تنگ نوجوانوں کو غلط راہ پر لگانے کیلئے ان کا برین واش نہیں کرسکے گا بلکہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو بھی آسانی سے ختم کیا جاسکے گا۔
معاشی فلاح و بہبود کے اقدامات اٹھانے سے پاکستان کو دہشت گردی سے محفوظ کیا جاسکتا ہے۔ اسی طرح دینی مدارس میں دی جانے والی تعلیم میں ہمدردی، باہمی بھائی چارے اور دیگر مسالک کیلئے ہم آہنگی اور یکجہتی کے پیغامات کو عام کیا جائے۔
معاشرے کے دیوار سے لگائے گئے افراد اور گروہوں کو قومی دھارے میں واپس لانے کی پالیسی اپنائی جائے اور ایسے لوگ جن کے حقوق کا استحصال ہوا ہے انہیں قومی دھارے میں لا کر دہشت گردی کی مختلف اقسام کا سدِ باب کیا جاسکتا ہے۔