ایران امریکا کشیدگی: ممکنہ جنگ کے اثرات و مضمرات کا ایک سنجیدہ جائزہ

کالمز

zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل
zia-2-1
حریدیم کے ہاتھوں اسرائیل کا خاتمہ قریب!
ایران امریکا کشیدگی: ممکنہ جنگ کے اثرات و مضمرات کا ایک سنجیدہ جائزہ
ایران امریکا کشیدگی: ممکنہ جنگ کے اثرات و مضمرات کا ایک سنجیدہ جائزہ

برادر اسلامی ملک ایران اور امریکا کے درمیان کشیدگی خطے میں سب سے اہم موضوع بن گیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان تند و تیز جملوں کو اہمیت نہ دینے والوں کو سب سے پہلے جھٹکا اس وقت لگا جب امریکا نے ایرانی کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو ہلاک کردیا۔

ایرانی  جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت حکومتِ ایران کے ساتھ ساتھ ایرانی عوام کے لیے کتنا بڑا سانحہ تھی، اس کا اندازہ مرحوم جنرل قاسم سلیمانی کے جنازے میں موجود عوامی جمِ غفیر کو دیکھ کر لگایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ روز ایران نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے سر کی قیمت 8 کروڑ ڈالر مقرر کی جو ایران کی آبادی کے تناسب سے بیان کی گئی۔

ہمارا ہمسایہ ملک ایران 2017ء کی مردم شماری کے مطابق 8 کروڑ 11 لاکھ 60 ہزار نفوس پر مشتمل ہے جس کے تناسب سے امریکی صدر کے سر کی قیمت 8 کروڑ ڈالر مقرر کرتے ہوئے عوام کو 1 ڈالر فی کس چندہ جمع کرنے کا عندیہ دیا گیا۔

جنرل قاسم سلیمانی کی ہلاکت ایران کے لیے اتنا بڑا قومی سانحہ تھا کہ حکومتِ ایران نے آج امریکی فوجی اڈوں پر ہونے والے حملوں کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ ہم نے اسی فوجی اڈے پر حملہ کیا جہاں سے بزدلوں نے ہمیں نشانہ بنایا تھا۔

ایران اور امریکا کے مابین ہونے والی لفظی گولہ باری اب عسکری حملوں کا روپ دھار چکی ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایران اور امریکا کے درمیان یا خطے میں کسی بھی دو یا زائد ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوتی ہے تو اس کے اثرات کیا ہوں گے۔

یقینی طور پرخطے میں کسی ممکنہ جنگ کی پیشگوئی تو نہیں کی جاسکتی، تاہم گزشتہ جنگوں کا مختصر احوال پیش کیا جاسکتا ہے تاکہ آئندہ ممکنہ جنگ کے خطرات کی ایک چھوٹی سی تصویر آپ کے ذہن میں پیدا ہوسکے۔

گزشتہ 100 سال کی جنگی تاریخ اٹھا کر دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ جنگیں انتہائی معمولی تنازعات اور چند شخصیات کے متنازعہ فیصلوں اور انا کی تسکین کے لیے لڑی گئیں جس سے انسانیت کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا۔ 

انسانی تاریخ میں جنگوں کی داستان بہت پرانی ہے۔ جنگیں انسان کی پیدائش کے ساتھ ہی شروع ہوئیں اور شاید انسان کو صفحۂ ہستی سے مٹانے کے بعد ہی ختم ہوسکیں، اس قصے کو مختصر کرتے ہوئے پہلی جنگِ عظیم سے شروع کرتے ہیں۔

پہلی جنگِ عظیم

Image result for First World War

پہلی جنگِ عظیم 1914ء میں شروع ہوئی اور 1918ء تک جاری رہی۔ 28 جولائی 1914ء کو شروع ہونے والی جنگ 11 نومبر 1918ء تک جاری رہی جسے شمالی امریکا میں یورپی جنگ کہا جاتا ہے۔ جنگ میں مجموعی طور پر 7 کروڑ عسکری اہلکاروں نے حصہ لیا جن میں سے 6 کروڑ یورپ سے تعلق رکھتے تھے۔یہ انسانی تاریخ کی سب سے بڑی جنگ تھی۔

جنگ کے دوران 70 لاکھ کے قریب شہری زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے جو دنیا کے ایک بڑے شہر کی آبادی بنتی ہے۔ جنگ کے دوران بڑے پیمانے پر عوام کا قتلِ عام کیا گیا جبکہ جنگ کے دوران پیدا ہونے والی بیماری کے نتیجے میں مرنے والے دنیا بھر کے 10 کروڑ لوگ اس کے علاوہ تھے۔

جنگِ عظیم دوم

Image result for 2nd world war

جنگِ عظیم دوم 1939ء میں شروع ہوئی جو 1945ء تک جاری رہی۔ 1 ستمبر 1939ء کو شروع ہونے والی جنگ جرمنی کے پولینڈ پر حملے سے شروع ہوئی جس کا ردِ عم دیتے ہوئے برطانیہ نے جرمنی کے خلاف جنگ کا اعلان کیا۔ برطانیہ چاہتا تھا کہ جرمنی کا عسکری سربراہ ہٹلر روس پر حملہ کرکے اس کے ٹکڑے کردے، لیکن ہٹلر نے اس کے برعکس کیا۔

ہٹلر نے پولینڈ پر حملہ کردیا جس سے گھبرا کر انگریز قوم نے اسی قوم کے خلاف ہتھیار اٹھا لیے جن کی وہ حمایت کر رہے تھے۔

Image result for US atom bomb on japan

دوسری جنگ عظیم کا سب سے دہشت ناک کام  امریکا کا جاپان کے شہر ہیروشیما اور ناگاساکی پر بم گرانا تھا جس کے نتیجے میں کروڑوں لوگ صفحۂ ہستی سے مٹ گئے۔ دو شہروں میں انسانوں اور جانوروں سمیت کوئی جاندار زندہ نہ بچ سکا۔

جنگِ کوریا 

Image result for Korea war 1950 killings

جنگ عظیم دوم کے بعد 25 جون 1950ء کی صبح شمالی کوریا نے جنوبی کوریا پر حملہ کرکے خونریزی کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ روس اور امریاک کوریا کی تقسیم کے معاملے پر الجھ رہے تھے۔ شمالی اور جنوبی کوریا کو ایک ملک بننا تھا، لیکن ایسا نہ ہوسکا۔جنگ میں چین، جاپان، کینیڈا اور آسٹریلیا بھی شامل ہو گئے جس سے جنگ طویل ہوتی چلی گئی۔ 

تین سال تک جاری رہنے والی جنگ کے دوران لاکھوں افراد اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ ہلاک ہونے والوں میں فوجی سپاہی، عوام اور ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد شامل تھے۔

ویت نام کی جنگ

Image result for People died in war

جنگ عظیم دوم کے بعد کوریا دو ٹکڑوں میں تقسیم ہوگیا جبکہ ویت نام کی تقسیم بھی اسی طرز پر عمل میں لائی گئی۔ جنگ کا آغاز امریاک کے ویت نام میں اتحادی ملک فرانس کی مدد کے لیے فوجیں بھیجنے سے ہوا۔ اس جنگ میں بھی اتحادی ممالک کے بلاکس بنے جو آپس میں ٹکرائے۔ امریکا اور فرانس کے ساتھ ساتھ جاپان، چین، آسٹریلیا اور کینیڈا آمنے سامنے آ گئے۔

ویت نام کی زمین پر ہونے والی جنگ 1955ء سے 1975ء تک تقریباً 20 سال کے طویل عرصے تک جاری رہی جس میں بڑے پیمانے پر مال و اسباب اور انسانی جانوں کا نقصان ہوا۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق تقریباً 38 لاکھ افراد اس طویل ترین جنگ کے دوران مارے گئے جبکہ 1626 افراد لاپتہ بھی ہوئے جن کا کبھی پتہ نہ چل سکا۔

افغانستان میں روس اور امریکا کی جنگ

Image result for Afghans killed

ہمسایہ اسلامی ملک افغانستان میں 1978ء سے شروع ہونے والی جنگ 1992ء میں روس کو ٹکڑے ٹکڑے کرکے ختم ہوئی۔ سوویت یونین جو کسی وقت دنیا کی سپر پاور کہلاتا تھا، آج نسبتاً ایک چھوٹا ملک بن چکا ہے اور اس کی وہ طاقت نہیں رہی جو پہلے کبھی تھی۔

افغانستان میں امریکا اور طالبان کی جنگ

Image result for World Trade Center

سن 2001ء میں 9 ستمبر تاریخ کا وہ سیاہ ترین دن تھا جب ورلڈ ٹریڈ سینٹر پر حملہ ہوا۔ امریکا نے دہشت گردی کے اس واقعے کا الزام افغانستان میں کام کرنے والی القاعدہ نامی جہادی تنظیم پر عائد کیا اور افغانستان سے روس کی پسپائی کے بعد افغانستان سے دہشت گردی کا صفایا کرنے کے نام پر ایک نئی جنگ شروع کردی جو آج تک جاری ہے۔

Image result for Afghanistan in war

افغان طالبان گروہوں میں تقسیم ہونے کے باوجود امریکا سے جنگ لڑنے میں مصروف ہیں جس میں سب سے زیادہ نقصان افغان عوام کا ہو رہا ہے۔ امریکا نے اس جنگ میں اپنی ہی عوام کے کھربوں ڈالرز جھونک دئیے، لیکن آج تک یہاں سے واپسی کا راستہ تلاش کر رہا ہے جسے آج کل افغان امن عمل کا نام دیا جاتا ہے۔

جنگ کے دوران لاکھوں کی تعداد میں افغانی عوام زندگی کی بازی ہار گئے۔ لڑنے والوں کے لاکھوں افراد جنگ کے دوران لقمۂ اجل بنے اور لاپتہ افراد کی تعداد کا اندازہ ہی نہیں لگایا جاسکتا۔

امریکا کا عراق پر قبضہ، ایک نئی جنگ کا آغاز

Image result for America invades iraq

امریکا اور نیٹو ممالک نے افغانستان میں افغان طالبان کے ہاتھوں طویل ترین جنگ سے کچھ نہیں سیکھا۔ اس کا ثبوت 2003ء میں امریکا کا عراق پر قبضہ قرار دیاجاتا ہے۔ 2003ء میں عراق کے عسکری سربراہ و صدر صدام حسین کو پھانسی دینے کے لیے ان پر مقدمہ چلانے کا ڈرامہ کیا گیا۔ بعد میں یہ اعلانات بھی ہوئے کہ امریکا اپنی فوجیں عراق سے واپس بلا رہا ہے۔

Image result for Iraq in war

ایسے تمام اعلانات نقش بر آب ثابت ہوئے اور 2011ء میں بھی ایسے ہی ایک اعلان کے بعد فوجیوں کے کچھ جتھوں کو واپس بھی بلایا گیا، تاہم امریکہ نواز حکومت کے باعث ملک میں خانہ جنگی آج تک ختم نہیں ہوسکی۔

نیٹو ممالک کی مدد سے عراق پر قبضہ کرنے والے امریکا نے 6 لاکھ بے گناہ عوام کا خون بہایا اور یہ خونریزی اور قتل و غارت عراق کے گلی کوچوں میں آج بھی جاری ہے۔

ایران امریکا کشیدگی، کیا یہ نئی جنگ کا آغاز ہے؟

ایران کے ساتھ امریکا کی کشیدگی کوئی نئی بات نہیں، تاہم لفظی جملوں سے بارودی حملوں پر منتقل ہونے والی جھڑپیں کوئی بھی نیا رخ اختیار کرسکتی ہیں۔ خطے کی موجودہ صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ سوال بہت اہم ہے کہ کیا ہم ایک نئی جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں؟

یہ قیاس آرائیاں بھی کی گئیں کہ ایران اچھی طرح سمجھتا ہے وہ امریکا کا کچھ نہیں بگاڑ سکتا، اس لیے ایران کی طرف سے لفظی حملے تو ضرور ہوں گے، لیکن حقیقی حملہ نہیں ہوسکتا، لیکن آج کا میزائل حملہ ہمارے سامنے ہے۔

آج وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف کے بیان کو سنجیدہ اور مدبرانہ قرار دیا اور کہا کہ ایران جنگ نہیں چاہتا، ہم اس بیان کا خیر مقدم کرتے ہیں، جبکہ دوسری جانب امریکا کی طرف سے بھی کوئی اشتعال انگیز بیان نہیں دیا گیا۔

وزیر اعظم عمران خان کا ایک موقعے پر دیا گیا یہ پیغام اپنی جگہ بہت اہم ہے کہ جنگ شروع کرنا دونوں فریقین کے ہاتھ میں ہے لیکن ایک بار جنگ کا آغاز ہوگیا تو یہ ختم کہاں ہوگی، کوئی بھی ملک یہ بات نہیں جانتا۔ 

یقینی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ امریکا یا ایران میں سے جنگ کا آغاز کون کرے گا، تاہم خطے پر منڈلاتے ہوئے جنگ کے سائے ہم سب کے سامنے ہیں۔ اگر امریکا اور ایران کی طرف سے جنگ کے خلاف سنجیدہ اقدامات نہ اٹھائے گئے تو جنگ کے خدشات وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مزید واضح ہوتے چلے جائیں گے لیکن پاکستان سمیت خطے کا ہر ملک چاہتا ہے کہ ایسا نہ ہو۔

ہم امید کرتے ہیں کہ  ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ بہت جلد ایک میز پر بیٹھ کر اس سنجیدہ ترین مسئلے کے حل کے لیے کوئی نہ کوئی صورت نکال لیں گے تاکہ جنگ کے خطرات سے نمٹا جاسکے۔