عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے وفد نے دورہ پاکستان کے بعد اپنے اعلامیے پاکستان نے کارکردگی کے لحاظ سے اپنے تمام معاشی اہداف حاصل کرلیے ہیں اورملک بتدریج بحالی کی جانب گامزن ہے۔
ارنسٹو ریمریز کی سربراہی میں آئی ایم ایف مشن پاکستان میں توسیعی فنڈ کی سہولت (ای ایف ایف) کے تحت پاکستان کے معاشی اصلاحات پروگرام کے دوسرے جائزے کے لئے 10 روزہ دورے پر آیا تھا۔
3 جولائی ، 2019 کو پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان ای ایف ایف کے تحت 6 بلین ڈالر کے قرض کے معاہدے پر دستخط ہوئے تھے جس میں آئی ایم ایف نے دو قسطوں کی منظوری دے دی تھی جبکہ تیسری قسط پر بات چیت جاری ہے۔
آئی ایف ایف پروگرام کیا ہے؟
عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے پاکستان کے معاشی اصلاحات پروگرام کو سپورٹ فراہم کرنے کے لیے توسیعی فنڈ سہولت (ای ایف ایف) کے تحت 39 ماہ کے توسیعی پروگرام کی منظوری دی ہے۔
ای ایف ایف پروگرام کا مقصد پاکستان کو معاشی طور پر مستحکم کرنا اور مالی امداد فراہم کرنا ہے۔ اس پروگرام کے چند اہم عناصر جن پر پاکستان کو توجہ مرکوز کرنا ہے وہ یہ ہیں:
1سب سے پہلے پاکستان کے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا ہوگا اور ساتھ ساتھ عوامی قرضوں کو کم کرنے کے لیے آئندہ آنے والے بجٹ 2020 میں اہم اقدامات کرنے ہوں گے۔
2۔ کمزور ترین طبقے کو ان بدلتی ہوئی معاشی پالیسی کے اثرات سے بچانا سب سے اہم ترجیح ہونی چاہیے اور اس حوالے سے معاشی پلان میں بڑے پیمانے پر وسائل لگائے جائیں جن کی مدد سے وہ علاقے جہاں غربت زیادہ ہو وہاں پر سرمایہ کاری جائے اور عورتوں کو حقوق دیے جائیں۔
3۔ پاکستان کے توانائی کے شعبےکو بہتر بنانے کے لیے اقدامات کرنے ہوں گے۔
4۔ سرکاری اداروں کے کمزور معاشی ڈھانچے کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
5۔پاکستان کو سرمایہ کاری کے موافق ماحول کو فروغ دیناہوگا۔
پاکستان اور آئی ایم ایف کے پروگرام
آئی ایم ایف کے قرض سے متعلق پروگرام دو طرح کے ہیں۔ جی آر اے اور پی آر جی ٹی، جی آر اے متمول ممالک کے لئے مخصوص ہے اور اسے بیل آؤٹ پیکیج کے نام سے بھی جانا جاتا ہے ، جبکہ پی آر جی ٹی غریب ممالک کے لئے ہے۔ پاکستان 1950 میں بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کا رکن بنا تھا۔ تب سے پاکستان نے حالیہ 6 بلین ڈالر سمیت 13 بیل آؤٹ پیکیجزحاصل کیے ہیں اور مجموعی طور پر یہ 22 واں قرض پروگرام تھا۔ 1958 میں پاکستان نے پہلی آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج حاصل کیا تھا۔
پاکستان کا بیرونی قرض
پاکستان کے بیرونی قرضوں میں 11 فیصد کے ریکارڈ اضافے کے ساتھ 105 بلین ڈالر سے زیادہ کا اضافہ ہوا ہے، ملک کا بیرونی قرضہ تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچ گیا ہے۔
پاکستان متعدد عالمی تنظیموں کا مقروض ہے جس میں پیرس کلب (11.3 بلین ڈالر) ، کثیرالجہتی اور دیگر ڈونرز (27 بلین ڈالر) ،یورو بونڈ اور سکوک جیسے دیگر بین الاقوامی بانڈ (12 بلین ڈالر) شامل ہیں۔اس کے علاوہ پاکستان پر 8.8 بلین ڈالر کے تجارتی قرضے بھی ہیں اور ایک سال سے کم کا قلیل مدتی قرض 1.1 بلین ڈالر ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت میں پاکستان نے اگست 2018 سے ستمبر 2019 تک اتحادی ممالک چین اور سعودی عرب سے 1.8 بلین ڈالر قرض لیاہے۔
جائزہ کے اختتام پر آئی ایم ایف کا بیان
پاکستان کی معاشی اصلاحات کے جائزے کے لئے پاکستان آنے والےعالمی مالیاتی فنڈ کے وفد نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ پاکستان کامیابی کے ساتھ معاشی اہداف کرچکا ہے اور دسمبر کےآخر میں آئی ایم ایف کی شرائط پر پورا اترا ہے۔
آئی ایم ایف مشن کے مطابق پاکستانی حکام کے ساتھ تعمیری اور نتیجہ خیز بات چیت ہوئی اور ر آئی ایم ایف مشن نے اعتراف کیا کہ پاکستان میں ر ٹھوس معاشی پالیسیوں کو جاری رکھنے کے لیے خاطر خواہ اصلاحات کی گئیں۔
آئی ایم ایف نے یہ بھی اعتراف کیا ہے کہ ملک کی معیشت مستحکم ہوگئی ہے اور بتدریج بحالی کی راہ پر گامزن ہے ، اعلامیے میں مزید کہا گیا ہے کہ کہ موجودہ زر مبادلہ کی شرح کی وجہ سے خسارہ کم ہوا ہے۔
آئی ایم ایف نے مزید کہا ، “پاکستان کے بین الاقوامی ذخائر توقع سے کافی تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔”اس کے علاوہ کہ ملک میں مہنگائی میں کمی کی توقع ہے اور مالی سال کے پہلے حصے میں استحکام دیکھنے میں آیا ہےجبکہ سماجی وترقیاتی منصوبوں پر معاشی اخراجات بڑھ چکے ہیں۔
آگے کیا ہوگا؟
آئی ایم ایف کے وفد کے مثبت ریمارکس سے پاکستان کی معیشت میں بڑھتے ہوئے استحکام کا پتہ چلتا ہے۔ 6 بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکیج کی تیسری قسط کے امکانات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ تاہم پاکستان کی موجودہ حکومت کو ٹیکس محصولات کے فرق کو پورا کرنا ہوگا۔
آئی ایم ایف کے مشن کےحوصلہ افزا بیان کے باوجود ، حتمی فیصلہ آئی ایم ایف کے واشنگٹن ہیڈ آفس سے آئے گا۔