افغانستان میں طالبان حکومت کی قیادت کون کرے گا؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Taliban delegation to hold humanitarian talks in Norway

آخرکار امریکی افواج کے افغانستان سے انخلاء کے چند روز بعد ہی طالبان نے اس بات کا فیصلہ کرلیا ہے کہ افغانستان کی قیادت کون کرے گا، طالبان کے سب سے سرگرم عہدیداروں کو توقع ہے کہ وہ حکومت کی قیادت کریں گے، جس میں سابقہ حکومت کے کسی بھی عہدیدار کو شامل کرنے کا امکان نہیں ہے۔

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کے مطابق، طالبان کی جانب سے نئی افغان حکومت کی تشکیل، جس کا اعلان جمعہ کو ہونا تھا، اب ایک دن کی تاخیر سے ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نئی حکومت کے قیام کا اعلان اب ہفتہ 4 ستمبر کو کیا جائے گا۔

طالبان کو ایک مشکل چیلنج کا سامنا ہے، جو دو دہائیوں کے بعد باغیوں سے منتقل ہوکر گورننس کی جانب بڑھ رہے ہیں، اس ساری صورتحال میں سوال یہ ہے کہ جنگ زدہ ملک میں طالبان حکومت کی قیادت کون کرے گا؟

کون قیادت کرے گا؟

کئی خبر رساں ایجنسیوں بشمول رائٹرز کے مطابق طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ ملا برادر افغانستان میں نئی حکومت کی قیادت کریں گے۔ملا برادر، جنہوں نے 1990 کی دہائی میں طالبان کی مشترکہ بنیاد رکھی تھی، عسکریت پسند گروپ 1996 اور 2001 کے درمیان اقتدار میں رہنے کے بعد وہ کئی اعلیٰ حکومتی عہدوں پر فائز رہے۔ 2001 میں امریکی حملے سے طالبان حکومت کے خاتمے کے بعد، برادر نے باغی گروپ کے جنگجوؤں کی قیادت میں مدد کی۔

خبر رساں ادارے رائٹرز نے اسلامک گروپ کے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ملا محمد یعقوب، طالبان کے بانی مرحوم ملا عمر کے بیٹے اور شیر محمد عباس ستانکزئی حکومت میں اعلیٰ عہدے سنبھالیں گے۔

ایک اعلیٰ طالبان عہدیدار نے گزشتہ ماہ رائٹرز کو بتایا تھا کہ توقع ہے کہ طالبان کے سپریم لیڈر ہیبت اللہ اخوندزادہ کو نئی گورننگ کونسل پر حتمی اختیار حاصل ہوگا۔

معاشی تباہی:

انسانی بنیادوں پر کام کرنے والی تنظیموں نے خبردار کیا ہے کہ شدید خشک سالی اور جنگ کی بدحالی نے ہزاروں خاندانوں کو اپنا گھر بار چھوڑنے پر مجبور کردیا ہے۔

افغانستان کو فنڈز کی اشد ضرورت ہے، اور طالبان کو تقریبا 10 بلین ڈالر کے اثاثوں تک تیزی سے رسائی حاصل ہونے کا تاحال امکان نہیں ہے جو زیادہ تر افغان مرکزی بینک کے بیرون ملک میں موجود ہیں۔

طالبان سے متعین مرکزی بینک کے سربراہ نے بینکوں کو یقین دہانی کرانے کی کوشش کی ہے کہ طالبان مکمل طور پر کام کرنے والا مالیاتی نظام چاہتے ہیں،لیکن انہوں نے اس بارے میں بہت کم تفصیلات بتائی ہیں کہ وہ کس طرح بیلنس کریں گے۔

ایک رپورٹ میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ افغانستان کی حقیقی مجموعی گھریلو پیداوار اس مالی سال میں 9.7 فیصد کم ہونے کی توقع ہے، جس میں اگلے سال 5.2 فیصد مزید کمی دیکھی جائے گی۔ زیادہ پرامید نقطہ نظر کی حمایت کے لیے غیر ملکی سرمایہ کاری کی ضرورت ہوگی۔

کیا دیکھنا ہے؟

بین الاقوامی امداد عطیہ دہندگان اور سرمایہ کاروں کی نظر میں نئی حکومت کی قانونی حیثیت معیشت کے لیے اہم ہو گی، کیونکہ ملک خشک سالی اور جنگ کی تباہ کاریوں سے لڑ رہا ہے جس نے ایک اندازے کے مطابق 240,000 افغانوں کی جانیں لیں۔

غیر ملکی امداد تک رسائی اور ملک کے بیرونی نقد ذخائر طالبان کے لیے اہم ہوں گے کیونکہ افغانستان معاشی تباہی کے دہانے پر ہے۔ امریکہ اور اس کے یورپی اتحادیوں نے طالبان پر زور دیا ہے کہ وہ ایک جامع حکومت تشکیل دیں جو خواتین اور ملک کی مختلف مذہبی اور نسلی اقلیتوں کی نمائندگی کرے۔

کیا طالبان معاشی بدحالی، انسانی تباہی اور سلامتی اور استحکام کے حوالے سے خطرات کا سامنا کرنے والے ملک پر حکومت کر سکتے ہیں؟ بشمول حریف جہادی گروہوں، بشمول اسلامک اسٹیٹ کی مقامی تنظیم پر۔

Related Posts