لانگ مارچ کے دوران حادثاتی موت کا شکار خاتون صحافی صدف نعیم کون تھیں؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

لانگ مارچ کے دوران حادثاتی موت کا شکار خاتون صحافی صدف نعیم کون تھیں؟
لانگ مارچ کے دوران حادثاتی موت کا شکار خاتون صحافی صدف نعیم کون تھیں؟
پی ٹی آئی کے لانگ مارچ کے دوران آج سادھوکی کے مقام پر عمران خان کے کنٹینر کے نیچے آکر چینل فائیو کی لیڈی رپورٹر صدف نعیم کی حادثاتی موت کا افسوسناک واقعہ پیش آیا، جس پر پوری قوم میں غم اور افسوس کی لہر دوڑ گئی۔

آئیے جانتے ہیں پوری قوم کو سوگوار کرنے والی اس حادثاتی موت کا شکار بد قسمت خاتون صحافی کون تھیں اور ان کا کیریئر کس طرح پروان چڑھا؟

صدف نعیم کون تھیں؟ 
مختلف ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق صدف نعیم کی عمر 40 سال تھی اور وہ گذشتہ 14 برس سے صحافت کے شعبے سے منسلک تھیں۔ انہوں نے صحافت کا آغاز شوبز کی خبروں سے کیا اور پنجاب کے معروف اخباری گروپ خبریں گروپ سے اپنے کام کا آغاز کیا۔
صدف کے شوہر نعیم بھٹی خود بھی کیمرا مین ہیں اور شادی بیاہ کی تقریبات کی فلم بندی کرتے ہیں۔ نعیم بھٹی کے مطابق ان کی دونوں کی شادی 2000 میں ہوئی اور ان کے دو بچے ہیں۔ بڑی بیٹی 20 سال جبکہ چھوٹا بیٹا 14 سال کا ہے۔
بیوی کی وفات پر سراپا غم میں ڈوبے ہوئے نعیم بھٹی کے مطابق صدف نعیم اپنے کام سے بہت محبت کرتی تھیں۔ انہیں کام کرنے کی مکمل آزادی تھی۔ انہوں نے بتایا کہ ہم اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے بہت محنت کر رہے تھے۔ اندازہ نہیں تھا کہ وہ اتنی جلدی چلی جائیں گی۔
صدف نعیم نجی ٹی وی چینل فائیو میں پرانے گانوں پر مشتمل ایک پروگرام کی میزبانی کے فرائض بھی سرانجام دیتی تھیں۔
لاہور سے جب تحریک انصاف کے لانگ مارچ کا آغاز ہوا تو وہ ان صحافیوں میں سے تھیں جنہیں تحریک انصاف کی انتظامیہ نے عمران خان کا انٹرویو کرنے کی اجازت دی تھی۔

یہ بھی پڑھیں:

خاتون صحافی کی موت کا المناک حادثہ، وزیر اعظم کا اظہار افسوس

ساتھی صحافیوں کی رائے
چینل فائیو میں صدف نعیم کے ساتھ کام کرنے والے ان کے ایک ساتھی نے بتایا کہ میں ذاتی طور پر صدف کو دو ہزار آٹھ سے جانتا ہوں اور انہیں تقریباً ہر بیٹ میں کام کرتے دیکھا۔ شوبز، سپورٹس، سیاست، تعلیم اور ہر قسم کے احتجاج کی کوریج کے دوران وہ اپنے مخصوص انداز میں موجود ہوتی تھیں۔
سپورٹس صحافی سہیل عمران بتاتے ہیں کہ میں نے صدف سے زیادہ محنتی رپورٹر نہیں دیکھی۔ وہ اتنی سادہ طبیعت کی مالک تھیں جیسے کوئی درویش ہو۔
پنجاب اسمبلی میں ان کے ساتھ طویل عرصہ رپورٹنگ کرنے والے صحافی اکرام راجا کہتے ہیں کہ صدف نعیم کی موت پر دل افسردہ ہوگیا ہے۔
ابھی ارشد شریف کا دُکھ کم ہوا نہیں کہ صدف بھی دُکھ دے گئیں۔ صدف سے میرا تعلق پنجاب اسمبلی کی راہداریوں سے بنا اور پھر احترام کا یہ رشتہ ہمیشہ قائم رہا۔
’لاہور میں ان کے آخری دنوں کی رپورٹنگ میں میری ان سے ملاقاتیں کم ہوئیں۔ سچ پوچھیں تو آج ایک ملنگ، فقیر صحافی دنیا سے رخصت ہوئی ہیں۔‘
خاتون صحافی مشال شاہین نے ڈیجٹیل نیوز سائٹ کو بتایا کہ ’میرے تو آنسو نہیں رُک رہے۔ ایک منٹ میں وہ خود خبر بن گئیں۔‘
’بے چاری روٹی کے لیے پتا نہیں کتنے دھکے کھا رہی تھی اور آج ان ہی دھکوں نے اس کی جان لے لی۔‘
صدف نعیم کی میت سادھوکی سے لاہور روانہ کر دی گئی ہے جہاں ان کی نماز جنازہ اور پھر تدفین ہوگی۔

Related Posts