اولمپکس میں بدترین کارکردگی، کیا بجٹ اور وسائل کی کمی کاجواز درست ہے ؟

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

What are the reasons for Pakistan's dismal Olympics performance?

32ویں اولمپک گیمز امریکا کی برتری کے ساتھ ختم ہو گئے، ٹوکیو میں ہونے والے اولمپکس 2020 میں امریکا نے 39 طلائی تمغے حاصل کیے جبکہ پاکستان اس عالمی ایونٹ میں کوئی تمغہ حاصل نہ کرسکا۔

پاکستان کے ارشد ندیم نے جویلن تھرو کے مقابلوں میں میڈل کی امیدیں جگائیں تاہم فائنل میں جان توڑ کوشش کے باوجود ارشد ندیم تمغہ حاصل کرنے میں ناکام رہے۔اولمپکس میں پاکستان کی بدترین کارکردگی پر کئی سوالات اٹھے اور سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ پاکستان عالمی مقابلوں میں گزشتہ کئی سالوں کی طرح امسال بھی ناکامی سے دوچار کیوں ہوا؟

پاکستانی دستہ
ٹوکیو اولمپکس 2021 میں پاکستان کا دستہ 10 ایتھلیٹس پر مشتمل تھا،22 کروڑ سے زائد آبادی کے ملک میں اولمپک ایسوسی ایشن کو صرف 10 کھلاڑی ملے جو عالمی ایونٹ میں پاکستان کی نمائندگی کرسکیں اور حیرت کی بات تو یہ ہے کہ ان 10 میں سے بھی کوالیفائی صرف 4 نے کیا تھا ،باقی 6 وائلڈ کارڈ انٹریز پر اولمپک کا حصہ بنے تاہم پاکستان کے 9 کھلاڑی خاطر خواہ کارکردگی کا مظاہرہ کرنے میں ناکام رہے ، ارشد ندیم نے میڈل کیلئے آخر تک جان لڑادی لیکن پاکستان کا تمغہ حاصل کرنے کا خواب شرمندہ تعبیر نہ ہوسکا۔

اولمپکس گیمز
جدید اولمپک کھیل یا اولمپکس عالمی سطح پر کھیلوں کے مقبول ترین مقابلے ہیں جو موسم گرما اور موسم سرماکے کھیلوں پر مشتمل ہوتے ہیں اور اُن میں دنیا بھر سے ہزاروں کھلاڑی حصہ لیتے ہیں۔

اولمپک کھیلوں کو دنیا کا اہم ترین مقابلہ تصور کیا جاتا ہے جس میں 200 سے زائد اقوام شریک ہوتی ہیں۔ اولمپک کھیلوں میں موسم سرما اور موسم گرما کے مقابلے ہر چار سال بعد منعقد ہوتے ہیں، یعنی دو اولمپک مقابلوں کے درمیان دو سال کا وقفہ ہوتا ہے۔

پاکستان کے اعزازات
پاکستان اولمپک گیمز میں اب تک 10 میڈلز حاصل کرچکا ہےجن میں سے 8 میڈلز قومی ہاکی ٹیم جبکہ ایک ریسلرمحمدبشیر اور ایک باکسر حسین شاہ نے حاصل کیا ، پاکستان نے 1968،1960 اور 1984 گیمز کے ہاکی مقابلے میں گولڈ جبکہ 1964،1956اور 1972 میں سلور، 1976 اور 1992میں برانزمیڈل جیتے۔

1960 کے روم اولمپک میں ریسلنگ کے 73 کے جی میں محمدبشیر نے برانزاور حسین شاہ نے 1988 میں برانزمیڈل جیتا۔تاہم اب صورتحال یہ ہے کہ قومی ہاکی ٹیم دو اولمپکس کیلئے کوالیفائی ہی نہیں کرسکی۔ 22 کروڑ کی آبادی والے ملک کے حصے میں اس برس بھی ایک میڈل نہیں آیا۔

پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن
پاکستان اولمپک ایسوسی ایشن پاکستان کی قومی اولمپک کمیٹی ہے، 1947 میں قیام پاکستان کے بعد1949 میں اس کمیٹی کا قیام عمل میں آیا اور تب سے پاکستان صرف 10 تمغے جیت سکا ہے،17 سال سے پی او اے کے صدرلیفٹیننٹ جنرل (ر) سید عارف حسن کاکہنا ہے کہ ملک میں ٹیلنٹ نکھارنے کا کوئی سسٹم نہیں،یہ ماننے والی بات ہے مگراس روٹ سےایلیٹ ٹریننگ لیول تک توجہ دینے کی ضرورت ہے۔

ارشدندیم کی بہت اچھی پرفارمنس رہی ہے،طلحہ طالب کا علم تھا کہ وہ بہت اچھا ویٹ لفٹر ہے، دونوں پر یقین تھا کہ یہ اولمپکس میں اچھی پوزیشن پرآئیں گے لیکن افسوس کہ پاکستان کا کوئی ایتھلیٹ تمغہ حاصل نہیں کرسکا۔

کھیلوں کا سالانہ بجٹ 
وزارت بین الصوبائی رابطہ کے زیراہتمام ملک بھر میں کھیلوں کے مختلف جاری و نئے منصوبوں کیلئے وفاقی بجٹ میں آئندہ مالی سال کیلئے 3 ارب 73 کروڑ 47 لاکھ 36 ہزار روپے مختص کئے گئے ہیں۔6 جاری اور 18 نئے منصوبوں کیلئے مجموعی تخمینہ لاگت 10 ارب 23 کروڑ 66 لاکھ روپے ہے جس میں سے جون 2021ء تک 2 ارب 90 کروڑ 64 لاکھ 9 ہزار روپے خرچ ہوچکے ہیں۔

18 نئے منصوبوں کیلئے مجموعی تخمینہ لاگت 4 ارب 34 کروڑ 27 لاکھ 38 ہزار روپے ہے جس میں موجودہ بجٹ میں آئندہ مالی سال کیلئے 2 ارب 31 کروڑ 8 لاکھ 58 ہزار روپے مختص کئے گئے ہیں جبکہ وفاقی حکومت نے گزشتہ مالی سال کے دوران کھیلوں کے مختلف منصوبوں کیلئے مجموعی طور پر 92 کروڑ 94 لاکھ روپے کے ترقیاتی فنڈز مختص کئے تھے۔

وسائل کی کمی
صحت مند زندگی کے لئے کھیل ایک نہایت اہم سرگرمی ہے ، کھیل سے مراد ہر وہ کام ہے جو ہماری ذہنی اور جسمانی نشو ونما میں ایک اہم کردار ادا کرے اور ہمارے جسم اور دماغ کو تروتازہ رکھے۔اس لئے کھیل نہ صرف تفریح کا ذریعہ ہے بلکہ ہمارے جسم کو صحت مند اور چاق وچوبند بھی رکھتا ہے۔پاکستان میں کھیل کے شعبہ کو ہمیشہ نظر انداز کیا جاتا رہا ہے اور حالات یہ ہیں کہ آج قومی کھیل ہاکی کا کوئی نام لیوانہیں ہے۔

کھیلوں کی ترقی کے لئے خاطر خواہ اقدامات کی کمی پر کھیلوں کی فیڈریشنزمایوسی کا شکار ہیں، وزیر اعظم پاکستان عمران خان خود پاکستان کو ورلڈکپ جتوانے والے کھلاڑی رہے ہیں۔ان کو تو کھیلوں پرزیادہ سے زیادہ توجہ دینے کی ضرورت تھی تاہم موجودہ دور حکومت میں بھی کھیلوں کا زوال افسوسناک امر ہے۔

حکومت کھیلوں کے شعبہ کو نظر انداز کرنے کے بجائے وسائل کی کمی کا مسئلہ حل کرے تاکہ آئندہ نسلوں کو ایک صحت مند معاشرہ دینے کے ساتھ ساتھ ملک و قوم کوعالمی سطح پر عزت اور وقار دلوایا جاسکے۔

Related Posts