مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

 محترمہ بینظیر بھٹو کے دوسرے دور حکومت میں امریکہ کی طرف سے دفعہ 295 سی کے خلاف دباؤ آنا شروع ہوا تو انہوں نے اپنے وزیرقانون اقبال حیدر سے اسے ایشو بنوالیا۔ اقبال حیدر روز اس دفعہ کے خلاف تقاریر فرماتے اور بیانات دیتے۔ جس سے امریکہ کو یقین ہوچلا کہ محترمہ اس دفعہ کو ختم کرنے میں سنجیدہ ہیں۔

تب اس دفعہ کے دفاع کے لئے مولانا فضل الرحمٰن میدان میں تھے اور پورے جوش و جذبے میں نظر آرہے تھے۔ انہی دنوں ایک مظاہرے پر پولیس فائرنگ سے کئی افراد جان سے گئے۔ یوں محترمہ نے امریکہ سے کہاکہ اب اگلے دس سال اس ایشو کا ذکر بھی مت کرنا کیونکہ قوم مرنے مارنے پر تل گئی ہے۔

یوں صورتحال کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے امریکہ ہی نہیں پورے مغرب نے اگلے کئی سال اس مسئلے پر خاموشی اختیار کرلی۔ راوی بتاتا ہے کہ تب محترمہ بینظیر بھٹو اور مولانا فضل الرحمن اس مسئلے کے حوالے سے “ایک پیج” پر تھے۔

بظاہر مقابل نظر آنے والے یہ دونوں رہنماء مل کر امریکہ کے خلاف کھیل رہے تھے۔ اس زمانے میں محترمہ بینظیر بھٹو اور مولانا فضل الرحمٰن کے ایک دوسرے کے خلاف بہت سے دلچسپ بیانات اخبارات کی زینت بنے تھے مگر ان میں دو بیانات بہت اہم تھے۔

ہوا یہ کہ ایک دن محترمہ بینظیر بھٹو نے ذو معنی بیان جاری کیا جس پر مولانا فضل الرحمٰن کا ردعمل آیا۔ بظاہر یوں لگتا تھا کہ مولانا نے ردعمل دیا ہے لیکن درحقیقت مولانا نے محترمہ کے بیان کا اصل مقصد ہی پورا کیا تھا۔ محترمہ کا بیان کچھ یوں تھاکہ
ناموس رسالت کے لئے کسی قانون کی ضرورت نہیں، پاکستانی عوام اس کی حفاظت خود کرسکتے ہیں
اس پر مولانا کا ردعمل کچھ یوں تھا کہ 
محترمہ قانون کی عملداری کے بجائے عوامی خون خرابے کے کلچر کو فروغ دینا چاہتی ہیں۔

سیاست ایک بہت ہی پیچیدہ کھیل بلکہ آرٹ ہے۔ اس میں بسا اوقات حریف نظر آنے والے درحقیقت حریف نہیں حلیف ہوتے ہیں اور مذکورہ دونوں سیاستدان اس کے مانے ہوئے ماسٹر ۔ محترمہ بینظیر بھٹو سے یہ توقع کرنا ہی پرلے درجے کی حماقت ہوگی کہ وہ قانون کے بجائے “عوامی انصاف” کا تصور بھی کر سکتی ہیں۔

ان دونوں لیڈرز کے مخاطب ضرور پاکستانی عوام تھے لیکن یہ سنا سب کچھ امریکہ کو رہے تھے۔ سو ان دونوں بیانات کو اسی تناظر میں دیکھا جائے تو بالکل واضح ہوجاتا ہے کہ یہ مل کر امریکہ کو کیا باور کرا رہے تھے۔ یہی بات اگر محترمہ امریکی سفیر سے ملاقات میں کہتیں تو نہ مانی جاتی لیکن جب یہ وقت کی وزیر اعظم اور بظاہر حریف نظر آنے والے اہم مذہبی رہنماء کے مابین مکالمے کی صورت عوامی سطح پر آئی تو خطرے کی گھنٹی بن گئی۔

قابل غور بات یہ ہے کہ ان دونوں بیانات کے ذریعے جو آج سے 28 سال قبل کہا گیا وہ ایک اصول کا درجہ رکھتا ہے۔ یہ دونوں رہنماء اپنے ان دو بیانات کے ذریعے اس بات کو پتھر پر لکیر کی طرح ثبت کرچکے کہ اگر قانون کی عملداری نہ ہوگی تو پھر پبلک کی عملداری یعنی جنگل کا قانون ہوگا۔

یہ کوئی اتنی پیچیدہ بات نہیں کہ کسی وکیل کو بھی سمجھ نہ آسکے۔ دنیا کا ہر آئین، ہر قانون اور اس کی ہر دفعہ و شق بنائی ہی اس لئے گئی ہے تاکہ جنگل کا قانون جگہ نہ بنا سکے، ریاست میں ایک نظام انصاف ہو اور وہی نظام جزا و سزا کا کا ذمہ دار ہو۔

اگلے دن نیوز چینل پر جلوہ افروز ایک پیرا شوٹر سیالکوٹ واقعے پر یہ کہتا پایا گیا کہ اگر دور رسالت یا خلفائے راشدین کے زمانے میں کوئی گستاخی کرتا تو کیا اس کے ساتھ یہ عوامی سلوک ہوتا ؟ یہ سوال بہت اہم ہے، مگر نا مکمل ہے۔ اس سوال کے ضمنی سوالات کچھ یوں ہیں۔

٭ کیا دور رسالت یا خلفائے راشدین کے زمانے میں گستاخی کے کیسز میں ایک پالیسی کے تحت یہ مہم چلتی تھی کہ الزام جھوٹا ہے، یہ ذاتی مقاصد کے لئے لگایا گیا ہے ؟۔

٭ کیا دور رسالت میں روم و فارس سے چارٹرڈ اونٹ یا گھوڑے گستاخی کے مجرموں کو لینے آیا کرتے تھے ؟ اور وہ ان گھوڑوں پر سوار بسلامت بچ نکلنے میں کامیاب ہوجاتے تھے؟۔

٭ کیا اس زمانے میں کسی نے یہ کہنے کی جرات بھی کی کہ گستاخی کا قانون ختم ہونا چاہئے ؟۔

ہماری سیاسی بصیرت اس حد تک چھن گئی ہے کہ ہم یہ نہیں دیکھ پا رہے کہ گستاخی کے ہر مجرم کو بچانے کے لئے مغرب فورا ًحرکت میں آجاتا ہے۔ وہ نہ صرف حکومتوں اور عدالتوں پر دباؤ ڈلتا ہے بلکہ چارٹرڈ جہاز بھیج کر گستاخوں کو تحفظ بھی فراہم کرتا ہے حتیٰ کہ بعض نامی گرامی گستاخوں کو تو ان کی جانب سے وزیر کا درجہ بھی دیا گیا۔

چنانچہ اب ہوتا یہ ہے کہ حکومتیں ملزم یا مجرم کو ان کے چارٹرڈ طیارے پر سوار کرانے کے لئے یہ جواز پیشگی گھڑ لیتی ہیں کہ وہ بے قصور ہے اسے ذاتی مفادات کے لئے اس کیس میں پھنسایا گیا ہے۔ سیالکوٹ جیسے واقعات کی حمایت کا تو سرے سے کوئی جواز ہی نہیں کیونکہ جرم و سزا قابل دست اندازی پولیس معاملہ ہے۔

اگر پولیس، عدالت اور ریاست اپنا فرض ادا نہ کریں تو اس سے عوام کو یہ حق نہیں مل جاتا کہ وہ خود پولیس، جج اور جلاد بن جائیں۔ ایسے اقدام کو خود اسلام بھی قبول نہیں کرتالیکن یہ مسلمہ اصول نظر انداز کرنا بھی جرم ہوگا کہ جتنا قانون کی عملداری کمزور ہوگی اتنی ہی لاقانونیت اور قانون شکنی بڑھے گی۔

اگر صرف اس تلقین سے کام چل سکتا کہ شہری کو قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں تو دنیا بھر کے پارلیمانی ایوان اپنے وجود کا جواز کھو چکے ہوتے۔ دنیا کے انتہائی ترقی یافتہ ممالک میں بھی روز نئی قانون سازیاں کیوں ہو رہی ہیں ؟ کیونکہ انسانی ذہن جرائم کے باب میں بھی ترقی کرتا ہے۔

آئے روز جرائم کے ایسے نت نئے حربے آزمائے جاتے ہیں جن کے تدارک کے لئے قانون کی کتاب میں کچھ موجود ہی نہیں ہوتاچنانچہ نئی قانون سازیاں اسی کے لئے جاری و ساری رہتی ہیں۔

پاکستان کا تو مسئلہ بھی صرف یہ نہیں کہ نئی طرز کی وارداتوں کے لئے قانون سازی کا چیلنج درپیش ہے بلکہ یہ بھی ہے کہ جن جرائم کے تدارک کے لئے قوانین موجود ہیں ان میں بھی بااثر ملزم بچ نکلتے ہیں۔ یہ جو آئے روز عدالتوں کے احاطے میں ہی فریق مخالف کی جانب سے ملزم قتل کردیئے جاتے ہیں یہ مقتول بااثر ملزمان ہی تو ہوتے ہیں۔

جب مخالف پارٹی کو واضح نظر آجائے کہ انصاف نہیں ملنا ، روز بس عدالتوں کی دھکے ہی کھانے ہیں تو وہ خود “انصاف” کرنے کا فیصلہ کرلیتے ہیں۔ اب آپ کتنی بھی تلقین کرلیں کہ یہ غلط ہے لیکن ہوتا رہے گا۔ اس کی راہ صرف قانون کی حقیقی عملداری سے ہی روکی جاسکتی ہے۔

آپ مانیں یا نہ مانیں مگر یہ حقیقت ہے کہ پاکستان کا سب سے بااثر ملزم گستاخی کا ملزم ہوتا ہے۔ وہ بھنگی ہی کیوں نہ ہو، امریکہ اس کی پشت پر آکھڑا ہوتا ہے۔ سو میں اور آپ جتنی چاہیں سیالکوٹ جیسے واقعات کی مذمتیں کرلیں، اور جتنی چاہیں تلقین کرلیں کہ یہ غلط ہے، مسئلہ حل نہ ہوگا۔

یہ بااثر ملزم پھربھی یوں ہی قتل ہوتے رہیں گے۔ یہ سلسلہ تب ہی رک سکتا ہے جب امریکہ اور دیسی لبرلز ان ملزمان کی پشت پناہی بند کردیں اور قانون کی صاف و شفاف عملداری یقینی ہو۔

اگر صورت حال یہ ہو کہ یہ دعویٰ تو کیا جائے کہ گستاخی کے ملزم پر جھوٹا الزام لگایا گیا مگر جھوٹے الزام میں سزا کسی ایک کو بھی نہ ہوئی ہو تو کون یقین کرے گا کہ واقعی الزام جھوٹا ہی تھا ؟۔

Related Posts