کراچی کی تباہی برسوں کا نوحہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد کی سربراہی میں 3 رکنی بینچ نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں اہم مقدمات کی سماعت شروع کردی ہے ۔سپریم کورٹ نے پیر کے روز نسلہ ٹاور کوایک ہفتے میں گرانے کا حکم دینے کے علاوہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ سے کراچی کا ماسٹر پلان طلب کیا ہے۔

سپریم کورٹ میں دوران سماعت کراچی میں تجاوزات،ٹوٹی سڑکوں،کچرے،قبضے اور بدانتظامی کے مسائل کا احاطہ کیا گیا، جہاں چیف جسٹس نے سندھ حکومت کی عدم توجہی پر برہمی کا اظہار کیا وہیں  وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے اپنی مجبوریوں اور وفاق کے ساتھ جاری کشمش کا بھی ذکر کیا۔

چیف جسٹس آف پاکستان نے کراچی رجسٹری میں گزشتہ کئی ماہ سے جاری مختلف کیسز کے علاوہ تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات پر خصوصی توجہ مرکوز رکھی ہوئی ہے۔

چیف جسٹس کی خصوصی دلچسپی کی وجہ سے عروس البلاد کراچی میں امسال گوکہ بارشیں کم ہوئیں لیکن برساتی نالوں کی صفائی کی صورتحال بہتر ہونے کی وجہ سے زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔

سپریم کورٹ کا صوبے کے سربراہ پر اظہار برہمی بجا ہے تاہم اگر حقیقت کا جائزہ لیا جائے تو کراچی کی تباہی کوئی اچانک نہیں ہوئی اوراس میں کسی ایک جماعت کا قصور نہیں ہے بلکہ تمام جماعتوں اور اداروں نے اپنامقدور بھر حصہ ملایا تب جاکر روشنیوں کا شہر کنکریٹ کا جنگل بن کر تباہی کی داستان بیان کرنے لگا ہے۔

کراچی میں تجاوزات بلاشبہ سب سے بڑا مسئلہ ہے اور شہر میں جابجا غیر قانونی تعمیرات نے پورے شہر کا نقشہ بگاڑ کر رکھ دیا ہے۔ سپریم کورٹ نے قبضہ مافیا کیخلاف سخت احکامات جاری کئے ہیں اور حکومت کو قابضین پر کوئی رحم نہ کھانے کی ہدایت کی لیکن بصد احترام چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد سے گزارش ہے کہ انتظامیہ کو احکامات پر عملدرآمد کا پابند بنانے کے ساتھ ساتھ زمینی حقائق پر بھی ضرور غور کیا جائے۔

یہ حقیقت ہے کہ کراچی تجاوزات کی وجہ سے اپنی اصل شناخت گنوا چکا ہے اور عدالت عظمیٰ نے عدالت عالیہ کی طرف سے دیئے جانیوالے حکم امتناع منسوخ کرکے غیر قانونی تعمیرات گرانے کا حکم دیکر ایک انتہائی اہم اقدام اٹھایا ہے کیونکہ تجاوزات کی بھر مار کی وجہ سے شہر کا حسن بد صورتی میں بدلنے کے علاوہ انفرااسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہوچکا ہے۔

تمام تر حقائق کے باوجود بصد احترام چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس گلزار احمد سے کچھ گزارشات ہیں کہ جناب جہاں تک رفاعی پلاٹس پر بنے اسپتالوں کی بات ہے تو ان سے جواب طلبی ضرور ہونی چاہیے اور دفاعی مقاصد کیلئے مخصوص جگہوں پر کمرشل سرگرمیوں پر بھی سوال بنتا ہے۔

چیف جسٹس صاحب کراچی کی تباہی غریب عوام کی وجہ سے نہیں بلکہ اس میں کے ایم سی، بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی، کے ڈی اے، کے الیکٹرک، گیس کمپنی اور تمام انتظامی ادارے شامل ہیں۔غریب آدمی کی اتنی حیثیت نہیں کہ سرکاری اراضی پر قبضہ کرلے۔

اس میں اداروں اور بااثر شخصیات کا ہاتھ ہوتا ہے جو سرکاری زمینوں پر قبضے کرکے غریب لوگوں کو بیچ دیتے ہیں اور سادہ لوح عوام اپنی چھت کے خواب کو پورا کرنے کیلئے مفادپرستوں کی خوراک بن جاتے ہیں۔

کراچی کو اصل حیثیت میں بحال کرنے کیلئے سپریم کورٹ کی دلچسپی و انہماک لائق تحسین ہے لیکن جناب چیف جسٹس صاحب آپ سے بصد احترام گزارش ہے کہ گھرچاہے غیر قانونی ہی کیوں نہ ہوں ان کو گرانے کے بجائے کوئی درمیان کا راستہ نکالا جائے۔

بحریہ ٹاؤن اور بنی گالہ کی مستقلی کو مدنظر رکھ کر کراچی کے غریب شہریوں کو بھی گھر مستقل کرنے کا کوئی راستہ دیا جائے تاکہ غریب عوام کو بے گھر ہونے سے بچایا جاسکے۔

روشنیوں کے شہر کو تجاوزات اور غیر قانونی تعمیرات کے اندھیروں میں جھونکنے والے اداروں کا کڑا محاسبہ کیا جائے اور ذمہ داران کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تاکہ آئندہ کوئی ادارہ یا شخص کراچی میں غیر قانونی تعمیرات قائم کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔

Related Posts