انکم ٹیکس آرڈیننس کی تیسری ترمیم بزنس کمیونٹی کیلئے نقصان دہ اور مایوس کن ہے،ناصر مگوں

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Consultation-less mini-budget is an unpopular decision of the government: President FPCCI

کراچی:ایف پی سی سی آئی کے صدر میاں ناصر حیات مگوں نے فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی جانب سے آئی ٹی او کی تیسری ترمیم 2021 کی دفعات کو برقرار رکھنے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

میاں ناصر حیات مگوں نے یہ بھی کہا کہ وہ ان خبروں سے چونک گئے ہیں جن میں سنگین مفادات کے ٹکراؤ کا انکشاف کیا گیا ہے جو کہ کمپنیوں کو ڈیجیٹل طریقے سے ادائیگیوں پر مجبور کرنے کے اس انتظام کی بنیاد ہے۔

معلوم ہوا ہے کہ یہ تجویز ایف بی آر کی ایک کمیٹی نے دی تھی اور برا ہ راست ایف بی آر کی طرف سے نہیں دی گئی۔ اس کمیٹی میں ایک B2B FinTech کمپنی کا مالک شامل ہے جوکہ ڈیجیٹل ادائیگیوں کے لیے سافٹ ویئر کی خدمات فراہم کرتی ہے۔

صدر ایف پی سی سی آئی نے مزید کہا کہ یہ تجویز فن ٹیک کمپنی کے مالک کی تھی؛ جو کہ ایف بی آر کی کمیٹی کا ممبر بھی تھااور کمیٹی کے کچھ دیگر اراکین کے مطابق انہو ں نے ہی اسے ترمیم کا حصہ بنانے کے لیے زور دیا۔

میاں ناصر حیات مگوں نے زور دیا کہ مذکورہ بالا ترمیم سے کاروباری لین دین میں خلل پڑنے کا خطرہ ہے کیونکہ ملک میں تقریباً تمام فروخت کریڈٹ پر کی جاتی ہیں اور یہ کریڈٹ خریداروں کی طرف سے فروخت کنندگان کے حق میں جاری کردہ پوسٹ ڈیٹڈ چیک کے ذریعے وصول کیا جاتا ہے۔

میاں ناصر حیات مگوں نے مزید کہا کہ ایف پی سی سی آئی نے ایف بی آر کے اس دعوے کا نوٹس لیا ہے کہ منظم اور غیر رسمی شعبے میں فریق ثالث کی طرف سے بھی ادائیگیاں کی جاتی ہیں جس کے تحت کاروباری ادارے سپلائی کے وقت ادائیگی کرتے وقت اپنے بینک اکاؤنٹس کا استعمال نہیں کرتے اور اپنے صارفین یا سر مایہ کاروں کو پرنسپل سپلائر کو براہ راست ادائیگی کرنے کے لیے کہتے ہیں۔ یہ سپلائی چین میں بہت زیادہ رائج ہے اور یہ ایک معمول بن گیا ہے ۔

ایف پی سی سی آئی ایف بی آر کی اس دلیل کو مکمل طور پر غلط سمجھتا ہے کیونکہ اس طرح کے طریقہ کار کو کسی بھی کمپنی کے ذریعہ استعمال نہیں کیا جاسکتا ہے کیونکہ کسی بھی کمپنی کو اپنی تمام ادائیگیوں پر ود ہولڈنگ ٹیکس کاٹنا پڑتا ہے اور اس ود ہولڈنگ ٹیکس کا ریٹرن با قاعدہ ایف بی آر میں جمع کروانا پڑتا ہے۔

میاں ناصر حیات مگوں نے وضاحت کی کہ ایک کمپنی صرف اس صورت میں اس طرح کا طر یقہ کار اپنا سکتی ہے جب اس کا کسی بینک میں ان ڈیکلیئرڈکاروباری اکاؤنٹ ہو۔ ایسی صورت میں ایسی کوئی بھی مجرم کمپنی ڈیجیٹل طور پر ادائیگیاں پھر بھی جاری رکھ سکتی ہے کیونکہ قانون میں تبدیلی کے باوجود اس کمپنی کے زیر استعمال بینک اکاؤنٹ بہرحال ان ڈیکلیئرڈ ہی ہے۔

میاں ناصر حیات مگوں نے نشاندہی کی کہ دنیا میں کہیں بھی بینک چیک بند نہیں کیے گئے ہیں یا کاروباری اداروں کو بینک چیک کے بجائے ڈیجیٹل ادائیگی کا طریقہ کار استعمال کرنے پر مجبور نہیں کیا گیا ہے۔

ایف بی آر کی جانب سے کمپنیوں کے ذریعے بینک چیک کے استعمال کو غیر قانونی قرار دینے کی خواہش درحقیقت ایک انوکھا مطا لبہ ہے۔

مزید پڑھیں:مرکزی بینک شرح سود میں اضافہ کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے،میاں زاہد حسین

انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان میں ڈیجیٹل ادائیگیاں کسی حد تک ہی ہو رہی ہیں اور ترقی یافتہ ممالک ڈیجیٹل ادائیگیوں کو استعمال کرنے میں ہم سے بہت آگے ہیں؛ لیکن اس کے باوجود انہوں نے بھی کمپنیوں یا کسی اور شخص کو چیک کے استعمال سے منع نہیں کیا ہے۔

ایف پی سی سی آئی کے صدر نے اس بات پر زور دیا کہ یہ بات کافی حد تک واضح ہے کہ ایف بی آر جن مسائل کو بیان کرتا ہے جو کہ اس کے مطابق ریونیو کے ضائع ہونے کا باعث بنتے ہیں وہ مسائل کارپوریٹ سیکٹر سے زیادہ نان کارپوریٹ سیکٹر سے متعلقہ ہیں۔

 سوال یہ بنتا ہے کہ کا روباری اداروں کو اس تھرڈ ڈگری کا نشانہ کیوں بنایا جا رہا ہے؟انہوں نے مزید کہا کہ اس کا واضح جواب ذاتی مفادات کے ٹکراؤ میں ہے جو کہ ایف بی آر پر اثرانداز ہوتے ہیں تاکہ کسی خاص کاروباری سیکٹر کو ایک ہی جھٹکے میں بے پناہ فروغ دیا جا سکے۔

Related Posts