اسلام آباد میں مندر کی تعمیر، عدالتی درخواست، بھارتی گانا اور عوامی تنقید

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

اسلام آباد میں مندر کی تعمیر، عدالتی درخواست، بھارتی گانا اور عوامی تنقید
اسلام آباد میں مندر کی تعمیر، عدالتی درخواست، بھارتی گانا اور عوامی تنقید

وفاقی دارالحکومت میں مندر کی تعمیر کی خبر سامنے آتے ہی سوشل میڈیا پر اس کے خلاف پیغامات کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا جبکہ مندر کی تعمیر کے خلاف عدالت میں ایک درخواست بھی زیرِ سماعت ہے۔

سوشل میڈیا پر مندر کی تعمیر کے حق میں ایک ہندو گلوکارہ کا گانا بھی زیرِ گردش ہے تاہم اس حوالے سے کچھ اہم سوالات کے جوابات جاننا ضروری ہے تاکہ ہمیں یہ علم ہوسکے کہ اصل حقیقت اور اس کے پسِ پردہ محرکات کیا ہیں۔

سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر کیا ننکانہ صاحب میں سکھوں کی سب سے بڑی عبادت گاہ کی تعمیر سے بڑی چیز ہے؟ دوسرا سوال یہ کہ مندر کی تعمیر کے خلاف درخواست کیوں دی گئی؟

تیسرا سوال یہ کہ اگر حکومت نے مندر کی تعمیر کی اجازت دی ہے تو اس کے پسِ پردہ حقائق کیا ہیں؟ اور سب سے آخری اور اہم سوال یہ کہ اسلام اس تمام تر صورتحال پر کیا کہتا ہے؟

مندر کی تعمیر کا فیصلہ اور ہندو برادری

گزشتہ ماہ کی 24 تاریخ کو ہندو برادری بے حد خوش نظر آئی کیونکہ اسلام آباد میں مندر کی تعمیر شروع ہوئی۔ 23 جون کو کرشنا مندر گراؤنڈ بریکنگ کی تقریب ہوئی جس میں پارلیمانی سیکریٹری لال مالہی مہمانِ خصوصی تھے۔

سی ڈی اے نے 2017ء میں ہندو برادری کو 4 مرلے زمین دی جس کی چاردیواری کا کام جون 2020ء کے اواخر میں شروع ہوا۔ لال مالہی نے کہا کہ بھارت مساجد گرا رہا ہے اور پاکستان مندر تعمیر کر رہا ہے۔وطنِ عزیز اقلیتوں کے حقوق پر یقین رکھتا ہے۔ 

ریاستِ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق

قائدِ اعظم کے ایک قول کے مطابق پاکستان میں ہندو، عیسائی اور دیگر اقلیتیں آزاد ہوں گی جہاں انہیں مندروں سمیت اپنی اپنی عبادت گاہوں میں جا کر فرائض کی ادائیگی کی اجازت دی جائے گی۔

بابائے قوم نے فرمایا کہ مساجد اور مندروں سمیت اقلیتیں کسی بھی عبادت گاہ کا رخ کرنے کیلئے آزاد ہوں گی جبکہ آئینِ پاکستان بھی اقلیتوں کو مساویانہ حقوق فراہم کرتا ہے جس کا ریاست نے ان سے وعدہ کیا ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں مندر کے خلاف درخواست

یکم جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے مندر کی تعمیر کے خلاف دی گئی درخواست پر کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کر لیا۔ ہائی کورٹ کے جج جسٹس عامر فاروق درخواست کی سماعت کر رہے ہیں۔

درخواست گزار ایک مقامی وکیل ہیں جن کا نام چوہدری تنویر اختر ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے سیکٹر ایچ 9 میں مندر کی تعمیر کیلئے جو زمین دی ہے وہ دارالحکومت کے ماسٹر پلان کے خلاف جبکہ سیّد پور ویلیج میں مندر پہلے سے موجود ہے۔

مقامی وکیل تنویر اختر نے کہا کہ بجائے پہلے سے موجود مندر کی تعمیر کرنے کے، حکومت نئے مندر کی تعمیر پر لگ گئی ہے۔ میرا مطالبہ ہے کہ زمین واپس لیں اور تعمیراتی فنڈز بھی حکومت واپس لے۔

درخواست پر پاکستانی ہندو برادری کاردِ عمل

لال مالہی جو وفاقی حکومت کے پارلیمانی سیکریٹری اور مندر کی تعمیر کے بڑے علمبردار بھی، انہوں نے کہا کہ عدلیہ سے رجوع کرکے مندر کی تعمیر رکوانا افسوسناک ہے۔ آئینِ پاکستان اقلیتوں کے مساوی حقوق کا ضامن ہے۔

پارلیمانی سیکریٹری نے کہا کہ تمام پاکستانی وطنِ عزیز پر مساوی حق رکھتے ہیں۔ ہندو برادری کے ساتھ ساتھ سیاح بھی مندر دیکھنے آسکیں گے۔ مخالف عناصر پاکستان کے سافٹ امیج اور قائدِ اعظم کے نظرئیے کے بھی حق میں نہیں۔ 

اسلام آباد کے مندر پر بھارتی قوم پرست گلوکارہ کا گانا 

سوشل میڈیا پر اسلام آباد میں مندر کی تعمیر پر ایک متعصبانہ ردِ عمل بھارتی قوم پرست گلوکارہ کے گانے کی صورت میں سامنے آیا جس کے ابتدائی بول ہی تعصبانہ ذہنیت کے عکاس ہیں۔

گلوکارہ کے پہلے ہی شعر کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ پاکستان پرستوں کو اوقات میں رہنا چاہئے کیونکہ مودی حکومت کے دوران اسلام آباد میں مندر بنے گا جس سے ہندوتوا کی پیروکار گلوکارہ کے توسیع پسندانہ عزائم واضح ہیں۔ 

غور کیا جائے تو مودی حکومت تو بھارت میں ہے، مودی حکومت کے عہد میں اسلام آباد میں مندر کی تعمیر بیان کرنے کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ ہندوتوا کے پیروکار پاکستان پر قبضے کا خواب اس طرح دیکھ رہے ہیں جیسے بلی کے خواب میں چھیچھڑے۔

گانے کے مزید بول بتا کر ان کی وضاحت فی الحال ہمارا مقصد نہیں، تاہم پاکستانی سوشل میڈیا صارفین کیلئے یہ سوالیہ نشان ضرور ہے جو کھل کر اس گانے اور اسلام آباد میں تعمیر ہونے والے مندر کی مذمت میں مصروف نظر آتے ہیں۔ 

https://www.facebook.com/arstar123/videos/3164649646957240/

عمران خان اور وفاقی حکومت پر بے جا تنقید 

جس جگہ یہ ویڈیو پوسٹ کی گئی، وہاں بھی اور مندر کی تعمیر کے حوالے سے کی گئی دیگر پوسٹس پر بھی سوشل میڈیا صارفین نے لمبے چوڑے تبصرے کیے ہیں جس میں  وزیرِ اعظم عمران خان اور وفاقی حکومت پر شدید تنقید جاری ہے۔

لوگ کہہ رہے ہیں کہ وزیرِ اعظم عمران خان مساجد گرانے اور مندر تعمیر کرنے میں مصروف ہیں۔ غور کیجئے تو مساجد کس نے گرائیں؟ سی ڈی اے انتظامیہ کی ناجائز تجاوزات کے خلاف کارروائی کے دوران مساجد کو نقصان پہنچا۔

کچھ لوگ جو مساجد کو نقصان پہنچنے پر یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ عمران خان نے یہ کیا ہے، ان کی بنیاد سیاست اور ن لیگ اور پیپلز پارٹی کا درِ پردہ ایجنڈہ بھی ہوسکتا ہے۔

دوسری جانب ابھی تک وفاقی حکومت نے مندر کی تعمیر کیلئے فنڈز جاری نہیں کیے ہیں۔ فنڈز کیلئے درخواست ضرور گئی ہے لیکن اس پر کارروائی حکومت  کا اختیار ہے۔ حتمی فیصلے سے قبل تنقید سمجھ سے بالاتر ہے۔ 

عوامی ردِ عمل کیا ہونا چاہئے؟ 

مندر کی تعمیر ایک حساس معاملہ ہے جس پر کوئی بھی ردِ عمل دینے سے قبل یہ سمجھنا انتہائی ضروری ہے کہ ہندوؤں کیلئے بت پرستی اتنی ہی اہم ہے جتنی کہ ہمارے لیے ایک خدا کی عبادت، بے شک ہم اسے گناہ اور شرک ہی کیوں نہ قرار دیں۔

دوسری بات یہ ہے کہ لاعلمی اور جہالت کے باعث مندر کی تعمیر کے حق میں یا خلاف بات کرنے سے گریز ضروری ہے جب تک علمائے کرام کی واضح رائے اِس بات پر سامنے نہ آئے کہ اسلام کا مؤقف کیا ہے۔

جب تک علمائے کرام کی طرف سے کوئی واضح رائے نہ آجائے، مندر کی تعمیر کے حق میں یا مخالفت میں کوئی بات کرنا حکومتی فیصلے کی بلاوجہ وکالت، بے جا مخالفت اور تنقید یا تعریف کے مترادف ہے، اس لیے خاموش رہنا بہتر ہے۔

Related Posts