پاکستان کی پہلی خاتون وزیرِ اعظم بے نظیر بھٹو، دورِ اقتدار سے شہادت تک

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

Order to produce five accused in Benazir Bhutto murder case in court

محترمہ بے نظیر بھٹو اگرآج زندہ ہوتیں تو اپنی 67ویں سالگرہ اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری اور پیپلز پارٹی رہنماؤں کے ہمراہ منارہی ہوتیں، تاہم 21 جون1953 ءکو ملک کے نامی گرامی سیاستدان اوروزیرِاعظم ذوالفقارعلی بھٹو کے ہاں جنم لینے والی بےنظیر بھٹو نے بے شمار سیاسی و سماجی اتار چڑھاؤ دیکھے اور ان گنت منازل پر کامیابی سے ہمکنارہوئیں۔

آج تک اِس تکلیف دہ سوال کاجواب کسی کے پاس نہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کو کس شقی القلب شخص کے کہنے پر قتل کیا گیا کیونکہ دہشت گردوں کاکوئی دین،مذہب یا سیاسی جماعت نہیں ہوتی۔ وہ کسی نظرئیے کے پیروکار نہیں ہوتے بلکہ انہیں روپے پیسے کے عوض خریدااور بیچا جاسکتا ہے۔

دوسری جانب شہادت سے قطعِ نظر محترمہ بے نظیربھٹو بے شمار اعزازات سے نوازی گئیں،انہیں ملکی و بین الاقوامی سطح پر خود انکے کردار،شخصیت،قابلیت اور صلاحیتوں کی بنیادپر سراہا گیا جبکہ والد کی طرف سے ملنے والی سیاسی نیک نامی نے انہیں ملک کی پہلی خاتون وزیرِاعظم بننے میں کسی نہ کسی حد تک مدد بھی کی۔

آئیے محترمہ شہید بی بی کے 67ویں یومِ پیدائش کے موقعے پر ان کی زندگی، دورِ اقتدار اور اعزازات سے شہادت تک کے سفر کا ایک مختصر جائزہ لیتے ہیں تاکہ یہ معلوم ہوسکے کہ وہ کتنی عظیم خاتون تھیں جنہیں خدا نے سن2007ء میں اپنے پاس بلا لیا اور وطن واپسی کے بعد وہ پھر کبھی ایوانِ اقتدار پر براجمان نہ ہوسکیں۔ 

ابتدائی زندگی اور تعلیم 

ذوالفقارعلی بھٹو کے زیرِسایہ بے نظیر بھٹو نے ابتدائی تعلیم کراچی میں واقع لیڈی جیننگز نرسری اسکول کے ساتھ ساتھ کانوینٹ آف جیسز اینڈمیری سے حاصل کی۔ 2 سال تک راولپنڈی اور کچھ عرصے تک مری میں بھی تعلیم حاصل کی۔ او لیول 15 سال کی عمر میں پاس کرنے کے بعد ہارورڈ یونیورسٹی میں1969ءمیں داخلہ مل گیا۔

سن 1973ءمیں20 سال کی عمرمیں محترمہ نے گریجویشن مکمل کی۔ ماسٹرز آکسفورڈ یونیورسٹی سے معاشیات، سیاسیات اورفلسفے میں کیا۔ ذوالفقارعلی بھٹو کی بیٹی ہونے کی وجہ سے ہر شعبۂ زندگی میں آسانیوں کے ساتھ ساتھ گوناگوں مشکلات اور پریشانیوں سے بھی واسطہ پڑتا رہا۔

سیاسی زندگی 

جون 1977ءمیں بے نظیر بھٹو وزارتِ خارجہ میں تعیناتی کیلئے وطن لوٹیں لیکن جلد ہی جنرل ضیاء الحق نے حکومت ختم کرکے ذوالفقار علی بھٹو کو جیل بھیج دیا۔ملک بھر میں مارشل لاءنافذتھا۔ بے نظیر کو بھی نظر بندکردیاگیا۔سن 1979ءمیں والدکو پھانسی کی سزاہو گئی۔ 81ء میں بے نظیر بھٹو نے مارشل لاءختم کرنے کیلئے ایم آرڈی اتحاد کے تحت سیاسی جدوجہد کا آغاز کیا۔

سن 80ء کی دہائی کے اواخرمیں بے نظیرکو پیپلز پارٹی کی سربراہ بنایا گیا۔اپریل 1986ءمیں وطن واپسی پر بے مثال استقبال ہوا۔ سن 1987ء میں آصف علی زرداری سے شادی ہوئی۔ 1988ءمیں ضیاء الحق کی وفات کے بعد جمہوریت کے راستے کھل گئے۔ غلام اسحاق خان نے قائم مقام صدرکی حیثیت سے انتخابات کروائے۔

دسمبر1988ءکی 2 تاریخ وہ لمحہ تھا جب بے نظیرپہلی بار ملک کی وزیرِاعظم بنیں۔اس وقت ان کی عمر 35سال تھی۔اسلامی دنیا میں بے نظیر کے بعد خاتون وزرائے اعظم کا دور شروع ہوا۔ اگست1990ءمیں بدعنوانی کے الزامات کے تحت بے نظیرحکومت ختم کردی گئی۔ 2 اکتوبر 1990ءکو ہونے والے انتخابات میں نواز شریف وزیرِاعظم منتخب ہوئے۔

بدعنوانی کے الزام میں نواز شریف حکومت کو بھی برطرفی کا منہ دیکھنا پڑا۔اکتوبر 1993ء میں بے نظیر ایک بار پھر وزارتِ عظمیٰ کی حقدار ٹھہریں۔1996ءمیں پیپلز پارٹی رہنما فاروق لغاری نے صدرکی حیثیت سے بدعنوانی کے ساتھ ساتھ ماورائے عدالت قتل اور بدامنی کے الزامات کے تحت برطرف کردیا۔

متنازعہ معاملات اور الزامات

بے نظیربھٹوپر الزام ہے کہ وہ ایٹمی پروگرام رول بیک کرنا چاہتی تھیں۔ان کے خلاف مقدمات بھی قائم ہوئے اور اکتوبر 2007ءمیں جب وہ وطن واپس آئیں تو کہا گیا کہ انہوں نے امریکہ سے امداد حاصل کرتے ہوئے مشرف سے ساز باز کی ہے جس کے نتیجے میں ان کے خلاف قائم مقدمات ختم ہو گئے۔

الزام یہ بھی ہے کہ سابق صدرِپاکستان آصف علی زرداری نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں ہی 1 ارب 50 کروڑڈالرکے ناجائز اثاثے حاصل کرکے اپنی مالی حیثیت کو نہ صرف مضبوط اور مستحکم کیا بلکہ ان کا نام دنیاکی سب سے زیادہ دولت رکھنے والی شخصیات میں لیا جانے لگا، تاہم سیاست اور تنازعات لازم و ملزوم ہوا کرتے ہیں، اس لیے یہ معاملات یہیں چھوڑتے ہیں۔

شہیدبی بی بطور وزیرِاعظم

محترمہ بے نظیربھٹو نے ملک کی وزیرِاعظم کے طور پر خواتین کیلئے بے شمار کام کیے۔ انہوں نے آئینِ پاکستان سے خواتین کے خلاف امتیازی قوانین ختم کرتے ہوئے ریاست میں انہیں مردوں کے برابر حقوق دلانے میں اہم کردار ادا کیا۔ انسانی حقوق محفوظ بنانے کیلئے وزارتِ انسانی حقوق بنائی جس کی سربراہی آج تحریکِ انصاف کی رہنما شیریں مزاری کر رہی ہیں۔

دورِآمریت میں زبردستی ہزاروں مزدوروں کو نوکریوں سے محروم کردیا گیا اوراپنے من پسند افراد کی تعیناتیاں کی گئیں جس کے خلاف عملی قدم اٹھاتے ہوئے بے نظیر بھٹو نے 40 ہزار سے زائد ملازمین کو ملازمتوں پر بحال کیا۔ ہر شہرمیں لیبرکالونیز بنائی گئیں تاکہ محنت کش افراد وہاں رہائش اختیار کرسکیں۔

وزارتِ انسانی حقوق کا کام ملک بھر میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف پالیسیاں بنانا اور ان پر عمل درآمد ہے۔ ظلم و ستم کا خاتمہ اس وزارت کی اہم ترجیح ہے۔ غریب مزدور پیشہ اور مفلوک الحال محنت کش سخت کام کے باوجود بھی ظلم و ستم کا شکار رہتے ہیں جن کیلئے قانون سازی اور ٹریڈیونینز پر بے جا پابندیوں کا خاتمہ بے نظیر بھٹوکے دور میں ہوا۔

اقوامِ متحدہ کے ذیلی ادارے آئی ایل او کے مطابق ملکی تاریخ میں سب سے زیادہ ملازمتیں وزیرِاعظم بے نظیر بھٹو کے دورِاقتدارکے دوران تخلیق ہوئیں جس سے معاشی مسائل حل ہوئے اور معیشت بہتری کی جانب گامزن ہونے لگی جبکہ ملک بھر میں توانائی کا بحران ختم کرنے کیلئے ایک اور قابلِ تحسین اقدام اٹھایا گیا۔

قومی کمیشن برائے خواتین کے نام سے ادارے کا قیام بے نظیر بھٹو کے دور میں عمل میں لایا گیا۔ فرسٹ ویمن بینک، خواتین کا علیحدہ پولیس اسٹیشن اور بے نظیر بھٹو انکم اسپورٹ پروگرام کے تحت خواتین کیلئے قرضے دینے کے وسیع پروگرام سے خواتین کو ہر شعبۂ زندگی میں معاشی و سماجی امداد فراہم کی گئی۔

آزادئ صحافت کیلئے میڈیا سے سینسر کا خاتمہ بھی بے نظیر بھٹو کے دور میں ہوا۔ پاکستان کے ساتھ ساتھ غیر ملکی میڈیا ٹرانسمیشن کیلئے آزاد پالیسی بھی تشکیل دی گئی۔ انسدادِپولیو مہم محترمہ بے نظیر بھٹو کے دور میں شروع ہوئی۔ پولیو کا مکمل خاتمہ ہوا جس پر ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن نے پاکستان کی تعریف کی۔

بے نظیر بھٹو نے سن 1994ء میں ایک نئی پاور پالیسی کا اعلان کیا۔ ملک بھر میں توانائی،بجلی کی کمی اور لوڈ شیڈنگ کا بحران ختمہوا جس سے معاشی ترقی کی راہ ہموار ہوئی۔ کم و بیش 1ہزار800 شہروں کو بجلی فراہم کی گئی۔ 15لاکھ گیس کنکشنز فراہم کرکے ایک نیا ریکارڈ قائم کیا گیا۔

پاکستان اسٹیل ملزکو منافع بخش ادارہ بنایا گیا جبکہ اسٹیل ملزایک ایسا ادارہ ہے جو ملکی معیشت کو بھرپور سہارا فراہم کرسکتاہے تاہم موجودہ حکومت اور گزشتہ حکومتوں سمیت ملک کا کوئی بھی وزیرِاعظم اسٹیل مل کو دوبارہ اس نہج پر کھڑا نہ کرسکا جیسا کہ محترمہ کے دور میں ہوا۔کراچی میں پورٹ قاسم کو وسعت دی گئی جس کی ثمرات آج تک عوام الناس سمیٹ رہے ہیں۔

محترمہ کی سالگرہ 

سن 2007ءمیں محترمہ بے نظیر بھٹو کو شہید کردیا گیاجب ان کی عمر کم و بیش 54 برس تھی۔ آج تک ان کے قاتلوں کا کچھ پتہ نہ چل سکا، تاہم آج ان کی سالگرہ کے موقعے پر پیپلز پارٹی رہنما انہیں خراجِ تحسین پیش کر رہے ہیں۔

ملک بھر کی پسی ہوئی خواتین، مزدور اور وہ تمام انسان جنہیں بےنظیر بھٹوکے دورِاقتدار سے کسی نہ کسی صورت فائدہ پہنچا ہو،آج انہیں یاد کرکے ان کی روح کے ایصالِ ثواب کیلئے دعا گو ہیں۔

Related Posts