بلدیہ فیکٹری میں زندہ جلائے جانے والے افراد کے لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

بلدیہ فیکٹری میں زندہ جلائے جانے والے افراد کے لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر
بلدیہ فیکٹری میں زندہ جلائے جانے والے افراد کے لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر

آج سے ٹھیک 8 سال قبل 11 ستمبر کے روز ظلم و ستم کی وہ داستان لکھی گئی جسے پڑھ کر انسانیت کی روح تک کانپ اٹھی۔ 259 افراد کو بلدیہ ٹاؤن کی گارمنٹس فیکٹری میں زندہ جلا دیا گیا جن کے لواحقین آج بھی انصاف کے منتظر ہیں۔

آج کراچی کی انسدادِ دہشت گردی عدالت میں بلدیہ فیکٹری کیس کی سماعت ہوئی۔سماعت کا احوال بعد میں، پہلے  بلدیہ ٹاؤن کی دردناک تاریخ پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔

بلدیہ فیکٹری میں آتشزدگی کا واقعہ

سن 2012ء میں 11ستمبر کے روز علی انٹر پرائزز نامی گارمنٹس فیکٹری میں آگ لگائی گئی۔ یہ گارمنٹس فیکٹری کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں موجود تھی جس میں 259 افراد جھلس کر جاں بحق ہو گئے۔

یہ افسوسناک واقعہ پاکستان کی تاریخ میں اپنی نوعیت کا ایک ایسا تکلیف دہ ترین واقعہ ہے جس کی مثال پاکستان کی 73 سالہ تاریخ میں دستیاب نہیں۔رشتہ داروں کے سوا کسی میں جھلس کر جاں بحق ہونے والوں کی لاشیں دیکھنے کی بھی ہمت نہیں تھی۔ 

بیک وقت ایک علاقے سے 50 جنازے اٹھے اور درجنوں گھرانوں میں صفِ ماتم بچھ گئی۔ بے شمار لوگ زندہ جل کر دُنیا سے رخصت ہونے والے اپنے پیاروں کے آخری دیدار سے بھی محروم رہے۔ وہ لوگ جو فیکٹری کے تہہ خانے میں گرم پانی میں کود گئے اور پھر جاں بحق ہوئے، ان کی میتیں بھی دیکھنے کے قابل نہیں تھیں۔ 

آتشزدگی کی وجہ شارٹ سرکٹ

ایڈووکیٹ فیصل صدیقی کے بیان کے مطابق وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) نے ایک تفصیلی رپورٹ پیش کی جس میں فیکٹری کی پہلی منزل پر لگنے والی آگ کو حادثاتی قرار دیا گیا۔ کہا گیا کہ یہ آگ شارٹ سرکٹ کے باعث لگی۔

حیرت انگیز بات یہ ہے کہ واقعے کے 3 سال بعد تک کسی کو یہ کہنے کی جرات نہ ہوئی کہ شارٹ شرکٹ اِس حادثے کی وجہ نہیں تھی بلکہ کسی نے مبینہ طور پر بھتہ نہ دینے پر یہ فیکٹری جلائی۔ یہ کوئی حادثہ نہیں تھا۔ 

واقعے کا ذمہ دار کون؟

تفتیش سے یہ بات سامنے آئی کہ ایک سیاسی جماعت سے وابستہ بڑے بڑے نام اِس کیس میں ملوث رہے۔ فیکٹری کے افراد کو بھتہ نہ دینے پر زندہ جلایا گیا۔ آج تک کسی ایک بھی فرد کو قرارواقعی سزا نہیں ہوسکی۔

کیس کی جے آئی ٹی رپورٹ جب عدالت میں پیش کی گئی تب یہ بات میڈیا پر سامنے آئی کہ واقعے کے مرکزی ملزم کے بیان کے مطابق متحدہ کے اعلیٰ عہدیدار نے فیکٹری مالکان سے 20 کروڑ روپے بھتہ مانگا جو نہ دینے پر فیکٹری میں موجود تمام افراد کو زندہ جلا دیا گیا۔ 

عدالتی کارروائی 

واقعے کے 3 سال بعد سندھ ہائی کورٹ کی طرف سے حکم جاری کیا گیا کہ بلدیہ فیکٹری کیس کی سماعت مکمل کرکے 1 سال کے اندر اندر فیصلہ سنایا جائے۔ یہ حکم آج کم و بیش 5 سال بعد شاید پورا ہوجائے، تاہم گزشتہ تمام تر عرصے میں اِس حکم پر عدالتی کارروائی متوقع تیز رفتاری سے انجام نہ دی جاسکی۔

رواں برس ہی سندھ ہائی کورٹ نے حکومت کو حکم دیا کہ سانحہ بلدی فیکٹری کی جے آئی ٹی رپورٹ پبلک کی جائے۔ یہ فیصلہ وفاقی وزیر علی حیدر زیدی کی درخواست پر سنایا گیا۔

صبح سویرے تازہ دم ہو کر فیکٹری میں کام کیلئے آنے والوں کو یہ معلوم نہیں تھا کہ آگ میں جھلس جانے کے بعد جو ناقابلِ برداشت بو پیدا ہوتی ہے، اس میں کوئی ان کی شناخت بھی نہیں کر پائے گا۔ 

حکومتی ردِ عمل 

افسوس کی بات یہ ہے صوبائی و وفاقی حکومت کی طرف سے واقعے پر غم و غصے کا اظہار تو کیا گیا لیکن جاں بحق ہونے والے مزدوروں کے لواحقین کو مالی امداد کا جھانسہ دیا گیا۔ سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلئے بیان بازی عروج پر رہی۔

معاملے کو سیاسی رنگ دینے کے بعد تحریکِ انصاف،متحدہ قومی موومنٹ اور پیپلز پارٹی سمیت دیگر سیاسی جماعتوں نے ذمہ دار افراد کی جلد گرفتاری اور لواحقین کو انصاف کی فراہمی کا مطالبہ کیا۔

بعد ازاں سندھ ہائی کورٹ نے از خود نوٹس لے کر ٹریبونل قائم کیا۔ 3ماہ کے بعد رپورٹ میں بلدیہ فیکٹری آتشزدگی کو شارٹ سرکٹ قرار دیا گیا۔ لاشوں کی شناخت، ڈی این اے ٹیسٹنگ اور امداد کے نام پر لواحقین کی تذلیل الگ ہوئی۔ 

بھتہ بے نقاب 

فیکٹری کیس کے 2 سال اور 5 ماہ بعد ایک اور رپورٹ سامنے آئی جس میں بتایا گیا کہ فیکٹری کو آگ بھتہ نہ دینے کی وجہ سے لگائی گئی۔ کراچی پر قابض ایم کیو ایم کے حامی علی انٹر پرائزز کے مالکان جو پہلے فنڈز دے رہے تھے، انہوں نے جب بھتہ نہیں دیا تو فیکٹری کو جلادیا گیا۔

عدالت کو اپنے ایک بیان میں فیکٹری کے پروڈکشن انچارج نے آگاہ کیا کہ متحدہ قومی موومنٹ نے ہم سے 25 کروڑ کا بھتہ طلب کیا۔ جب معاملات طے نہ ہوئے تو فیکٹری کو آگ لگا دی گئی اور 260 کے قریب لوگ زندہ جلا دئیے گئے۔

کیس کی موجودہ صورتحال

توقع تھی کہ کراچی کی انسدادِ دہشت گردی آج بلدیہ کیس کا محفوظ فیصلہ سنائے گی جو  گزشتہ سماعت پر محفوظ کیا گیا تھا ۔ زبیر چریا اور رحمان بھولا کے علاوہ دیگر ملزمان کے نام بھی کیس میں درج ہیں۔

رؤف صدیقی، زبیر چریا اور رحمان بھولا پر فردِ جرم گزشتہ برس فروری میں عائد کی گئی۔ اب تک 400 عینی شاہدین اور دیگر افراد اپنے بیانات ریکارڈ کروا چکے ہیں تاہم یہ فیصلہ آج بھی نہ سنایا جاسکا۔

عدالت نے بلدیہ فیکٹری کیس کا فیصلہ 22 ستمبر تک مؤخر کردیا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بلدیہ فیکٹری کیس کے لواحقین کو انصاف کے حصول کیلئے ابھی مزید انتظار کرنا پڑے گا۔

نظامِ انصاف کی سست روی پر پریشان حال بلدیہ فیکٹری متاثرین کا حکومتِ وقت سے صرف ایک ہی سوال ہے کہ ان کا قصور کیا تھا جس کی اتنی بڑی سزا دی گئی اور مجرم آج تک کیفرِ کردار تک نہ پہنچائے جاسکے؟

Related Posts