وفاقی بجٹ خامیوں کا مجموعہ

مقبول خبریں

کالمز

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پی ٹی آئی کی زیرقیادت وفاقی حکومت نے ملک کی معاشی سست روی اور کورونا وائرس کے باعث پیدا ہونیوالے چیلنجز کے درمیان مالی سال 21-2020کے لئے اپنا بجٹ پیش کردیا ہے۔

کورونا وائرس کی مہلک وبائی بیماری نے پاکستان جیسی ترقی پذیر معیشتوں کو بری طرح متاثر کیا ہے اور وبائی مرض نے نہ صرف صحت کے شعبے کو متاثر کیا ہے بلکہ معاشرتی اور معاشی اثرات بھی مرتب کیے ہیں۔

حکومت کی طرف سے کورونا وائرس پھیلنے پر قابو پانے کے لئے لاک ڈا ؤن کی وجہ سے معاشی سرگرمیاں سست ہوگئیں جس نے جی ڈی پی کی شرح اور سرمایہ کاری پر بھی منفی اثر ڈالا۔

وفاق کی جانب سے پیش کردہ بجٹ میں کوئی نیا انکم ٹیکس نہیں لگایا گیا ہے کیونکہ حکومت ٹیکس دہندگان پر زیادہ ٹیکس لگانے کے بجائے زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ٹیکس ادا کرنے کے لئے ٹیکس نیٹ کو بڑھانا چاہتی ہے۔

بجٹ میں سبسڈیوں میں 48 فیصد کمی ، پیٹرولیم لیوی میں تقریباً 73 فیصد اضافہ ، تنخواہوں اور پنشنوں کو منجمد کرنے کا اقدام سامنے آیا۔ اگلے سال اخراجات کم ہونے کاتخمینہ لگایا گیا ہے ، 70 ارب روپے کورونا سے متعلقہ اسکیموں پر خرچ کیے جائیں گے تاکہ کمزور افراد کے حالات زندگی کو بہتر بنایا جاسکے۔

حکومت نے سی پیک کے معاملے پر خاطر خواہ پیشرفت نہیں کی ، پاکستان کی معیشت بنیادی طور پر غیر ملکی قرضوں پر انحصار کرتی ہے لہٰذا معاشی منتظمین سی پیک کا ذکر نہ کرتے ہوئے آئی ایم ایف اور دیگر بین الاقوامی قرض دہندگان کو راضی کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

21-2020کا بجٹ ایک روایتی بجٹ ہے جس کی اقتصادی ترجیحات کو تبدیل کرنے پر کوئی توجہ نہیں دی گئی ۔ معاشی بحران کے باوجود حکومت نے اپنے غیر ترقیاتی بجٹ اور سرکاری محکموں کو چلانے کے لئے فنڈز میں کمی نہیں کی۔

حکومت نے معیشت کی تمام بیماریوں کے لئے کورونا وائرس کو ذمہ دار قراردیدیا ہے لیکن اگر حقیقت کی نگاہ سے دیکھا جائے تووبائی مرض سے پہلے ہی معیشت وینٹی لیٹر پر تھی۔

معیشت ملکی اور غیر ملکی قرضوں پر چل رہی ہے اور قرضوں کے بوجھ کو کم کرنے کے لئے کوئی پالیسی نہیں بنائی گئی جبکہ قرض کے بارے میں سچائی یہ ہے کہ اسے کسی نہ کسی دن واپس کرنا پڑتا ہے۔ پاکستان کے قرضوں کا مجموعی بوجھ انتہائی غیر مستحکم ہے۔ جی ڈی پی تناسب پر اس کا عوامی قرض 86.1 فیصد ہے۔

حکومت پاکستان اور ملک کی اسٹیبلشمنٹ کو کبھی بھی سی پیک کے معاشی فوائد میں دلچسپی نہیں تھی ، حکومت صرف ایسے مالی وسائل چاہتا تھی جو اس منصوبے کے بعد آنے ہیں ، خاص طور پر ملٹی بلین ڈالر کی کک بیک کی شکل میں ملنے والے فوائد پرزیادہ نظر ہے ۔

حکومت رواں مالی سال 20-2019کے دوران طے شدہ کسی بھی بڑے اہداف کو حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہی کیونکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اپنے ٹیکس وصولی کے اہداف میں پیچھے رہااس لئے بجٹ 21-2020کے تمام معاشی اہداف کو پرجوش انداز میں طے کیا گیا ہے ۔

پاکستان میں معیشت اور صنعتیں مافیا زچلا رہے ہیں، مثال کے طور پر شوگر مافیا کئی سالوں سے سبسڈی وصول کررہا ہے ، آٹے کی ملیں رعایتی نرخوں پر گندم وصول کررہی ہیں لیکن وہ آٹے کو غیر معمولی نرخوں پر فروخت کرتے ہیں۔حکومت کی ترجیحات اور اعداد وشمار سے کوئی بھی 21-2020بجٹ میں موجود خامیاں  باآسانی سمجھ سکتا ہے ۔

Related Posts