نوجوان طالبہ کی بوری بند لاش پر سست رفتار تفتیش، قاتل کی گرفتاری میں 9سال لگ گئے

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

نوجوان طالبہ کی بوری بند لاش پر سست رفتار تفتیش، قاتل کی گرفتاری میں 9سال لگ گئے

اسلام آباد پولیس نے نوجوان طالبہ کی بوری بند لاش برآمد ہونے پر سست رفتار تفتیش کی اور سفاک ملزم کی گرفتاری کیلئے لواحقین سے تعاون نہیں کیا جس کے باعث قاتل کی گرفتاری میں 9 سال کا طویل عرصہ گزر گیا۔

تفصیلات کے مطابق تھانہ کورال کے علاقے میں کورنگ نالے سے 22 سالہ طالبہ کی بوری بند لاش 9 سال قبل برآمد ہوئی تھی۔ سفاک قاتل کی 9 سال بعد گرفتاری نے پولیس کی سستی، ناقص تفتیش اور کیس میں دلچسپی کے تمام سابقہ ریکارڈ توڑ دئیے۔

مقتولہ کی لاش پراسرار گمشدگی کے اگلے ہی روز برآمد ہوچکی تھی لیکن جڑواں شہروں کی پولیس کے درمیان عدم تعاون کے باعث طالبہ کی شناخت 3 ماہ بعد جا کر ہوئی اور اس وقت تک کورال پولیس میت کو امانتاً دفن کرچکی تھی۔

مقامی پولیس نے مردان کے علاقے سے سفاک قاتل کو 9 سال بعد گرفتار کر لیا لیکن کورال پولیس گرفتاری کا کارنامہ اپنے نام کرنے کیلئے فوری میدان میں کود گئی۔ طالبہ  راولپنڈی میں محلہ بنی چوہڑ کے رہنے والے رکشہ ڈرائیور کی بیٹی تھی۔

رکشہ ڈرائیور محمد رشید کی 6 بیٹیاں اور 1 بیٹا ہے جن میں سے سب سے بڑی بیٹی نرگس پنجاب کالج میں تھرڈ ائیر میں زیرِ تعلیم تھی جو 7 دسمبر 2012ء کی صبح گھر سے کالج جانے کیلئے نکلی اور پراسرار طور پر لاپتہ ہوگئی۔

اگلے روز 8 دسمبر کو تھانہ کورال کے کورنگ نالے کے قریب غوری ٹاؤن، فیز 4 اے کے نزدیک سے نوجوان طالبہ کی بوری بند لاش برآمد ہوئی۔ مقتولہ کے جسم پر پستول سے 7 فائر کیے گئے تھے جس کے نتیجے میں وہ جاں بحق ہوگئی۔

کورال پولیس نے مقتولہ کی میت پوسٹ مارٹم کیلئے پمز ہسپتال منتقل کردی اور شناخت نہ ہونے پر طالبہ کو مقامی قبرستان میں امانتاً دفن کردیا۔اس دوران مقتولہ کے ورثاء برآمدگی اور تدفین سے لاعلم رہے جنہیں 3 ماہ بعد پتہ چلا کہ ان کی بیٹی اِس دنیا میں نہیں رہی۔

پولیس نے تصاویر دکھا کر لواحقین سے بیٹی کی شناخت کرائی تاہم طالبہ کو دفنایا جاچکا تھا، اس لیے لواحقین آخری دیدار سے بھی محروم رہے۔ ورثاء نے پولیس کو بتایا کہ ہمارے محلے کا مہمندایجنسی سے تعلق رکھنے والا کباڑیا بیٹی سے شادی کرنا چاہتا تھا۔

ورثاء کا کہنا تھا کہ شادی سے انکار پر فضل الرحمان نامی کباڑئیے نے دھمکیاں بھی دی تھیں جو وقوعے کے روز سے ہی علاقے سے غائب ہوگیا۔ پولیس نے معلومات لینے کے باوجود تفتیش میں سستی سے کام لیا جس کے بعد 9 سال گزر گئے اور لواحقین نے صبر کر لیا۔

گزشتہ روز کورال پولیس نے اچانک لواحقین کو آگاہ کیا کہ قاتل فضل الرحمان قانون کی گرفت میں آچکا ہے جسے مردان سے مقامی پولیس نے گرفتار کیا۔ قانونی تقاضے پورے کرنے کے بعد اسے اسلام آباد پولیس کے حوالے کردیا جائے گا۔

دوسری جانب ترجمان اسلام آباد پولیس نے فوری طور پر ملزم کی گرفتاری کورال پولیس کا کارنامہ قرار دیتے ہوئے نہ صرف پولیس ٹیم کی تعریفوں کے پل باندھ دئیے بلکہ نئے ایس پی رورل زون نوشیروان کی جانب سے پولیس ٹیم کو شاباشی دینے کی پریس ریلیز بھی جاری کردی۔

یہ بھی پڑھیں: حیدرآباد میں شادی ہال کا ویٹر مہمانوں کے مبینہ تشدد سے جاں بحق ہوگیا

Related Posts