پاکستان سمیت دُنیا بھر میں خواندگی کا عالمی دن اور تعلیم کی حالتِ زار

مقبول خبریں

کالمز

Ceasefire or a Smokescreen? The US-Iran Next Dialogue of Disillusions
جنگ بندی یا دھوکہ؟ امریکا اور ایران کے درمیان فریب پر مبنی اگلا مکالمہ
Israel-Iran War and Supply Chain of World Economy
اسرائیل ایران جنگ اور عالمی معیشت کی سپلائی چین
zia-2-1-3
بارہ روزہ جنگ: ایران اور اسرائیل کے نقصانات کا جائزہ

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

پاکستان سمیت دُنیا بھر میں خواندگی کا عالمی دن اور تعلیم کی حالتِ زار
پاکستان سمیت دُنیا بھر میں خواندگی کا عالمی دن اور تعلیم کی حالتِ زار

پاکستان سمیت دُنیا بھر میں آج عالمی یومِ خواندگی منایا جارہا ہے جس کا مقصد عوام الناس، نوجوانوں، بڑے بوڑھوں، سیاستدانوں اور اقتدار کے ایوانوں میں بیٹھے ہوئے حکمرانوں سمیت ہر انسان پر تعلیم کی اہمیت آشکار کرنا ہے۔

رواں برس کے آغاز میں ہی اقوامِ عالم کو کورونا وائرس کا سامنا کرنا پڑا جس کی روک تھام کیلئے لاک ڈاؤن لگایا گیا جس سے کاروباری سرگرمیوں، عوامی اجتماعات اور میل جول کے ساتھ ساتھ تعلیم پر بھی برا اثر پڑا۔

سوال یہ ہے کہ تعلیمی عمل جو ہماری زندگی کی بہتری، ترقی اور خوشحالی کے ساتھ ساتھ بعض اوقات ہماری بقاء کیلئے بھی ضروری ہوجاتا ہے، عالمی برادری اس پر توجہ کیوں نہیں دے رہی اور کروڑوں لوگ جاہل کیوں ہیں؟

آج تعلیم کے بارے میں ایسے ہی مختلف سوالات کا جواب تلاش کرنے کیلئے ہم اقوامِ متحدہ اور عالمی برادری کے ساتھ ساتھ پاکستان میں بھی تعلیم کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیں گے۔

دُنیا بھر میں تعلیم کی صورتحال اور کورونا وائرس 

اقوامِ متحدہ کے ادارے یونیسکو کے مطابق دنیا بھر کے 77 کروڑ 30 لاکھ نوجوان اور بالغ افراد بنیادی تعلیمی مہارتوں سے محروم ہیں جبکہ تعلیمی عمل کو موجودہ کورونا وائرس کی روک تھام کیلئے نافذ لاک ڈاؤن سے بے حد نقصان پہنچا۔

کورونا وائرس کے باعث دُنیا کے 190 سے زائد ممالک نے اسکولز، کالجز، یونیورسٹیز ، ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ اور مدرسوں سمیت دیگر تعلیمی ادارے بند کردئیے جس سے 1ارب 27 کروڑ افراد متاثر ہوئے۔

مذکورہ 1 ارب 27 کروڑ افراد میں ہمارے بچوں سے لے کر وہ نوجوان اور بالغ افراد بھی شامل ہیں جو محض تعلیمی قابلیت کو بڑھانے یا پیشہ ورانہ ترقی حاصل کرنے کیلئے تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ 

پاکستان میں شرحِ خواندگی کی تعریف اور اعدادوشمار 

سن 2018ء کے اعدادوشمار کے مطابق پاکستان میں آج شرحِ خواندگی 72 اعشاریہ 5 فیصد بتائی جاتی ہے جس میں خواتین کی شرحِ خواندگی 51 اعشاریہ 8 فیصد ہے۔

صوبہ پنجاب میں 64اعشاریہ 7 فیصد، سندھ میں 62 اعشاریہ 2 فیصد، خیبر پختونخوا میں 55اعشاریہ 3 فیصد جبکہ بلوچستان میں 55 اعشاریہ 5 فیصد شرحِ خواندگی بتائی جاتی ہے تاہم یہ وہ شرحِ خواندگی ہے جو عالمی معیار کے مطابق نہیں۔ 

پاکستان میں شرحِ خواندگی سے مراد یہ لیا جاتا ہے کہ آپ انگریزی، اردو اور سندھی سمیت کسی بھیزبان میں کوئی اخبار یا میگزین اٹھا کر پڑھ سکیں، ایک سادہ خط تحریر کرسکیں اور ریاضی کی بنیادی جمع تفریق کرسکیں۔

ریاضی کی بنیادی جمع تفریق میں صرف گنتی اور جمع تفریق شامل ہے جو آج کل نرسری سے لے کر پرائمری کی سطح تک سکھا دی جاتی ہے بلکہ پرائمری کا ایک بچہ بھی اِس سے کہیں زیادہ علم رکھتا ہے جتنی خواندگی کی تعریف کی گئی۔ 

سب سے زیادہ شرحِ خواندگی رکھنے والے ممالک  اور پاکستان

دنیا بھر میں سب سے زیادہ شرحِ خواندگی رکھنے والے ممالک میں شمالی کوریا، یوکرین، ازبکستان، آذر بائیجان، کیوبا، اٹلی، سنگاپور، تاجکستان، چین، کرغزستان، پولینڈ، کروشیا، لیبیا، ترکی، مالدیپ اور کویت شامل ہیں جہاں شرحِ خواندگی 99 اعشاریہ 2 فیصد سے لے کر 100 فیصد تک ہے۔

عالمی برادری میں شرحِ خواندگی کے اعتبار سے 143 ویں نمبر پر موجود پاکستان کے ساتھ موجود دیگر ممالک کی بات کی جائے جن کی شرحِ خواندگی وطنِ عزیز سے ملتی جلتی ہے تو ان میں  یمن، انگولہ، ملاوی اور موزنبیق شامل ہیں جن کی شرحِ خواندگی بالترتیب 77، 77 اعشاریہ 4، 72 اعشاریہ 9 اور 70 اعشاریہ 5 فیصد ہے۔

ملک میں  تعلیم کیلئے بجٹ کی صورتحال اور دیگر ممالک 

جب ہم تعلیم کیلئے بجٹ کی صورتحال کا تجزیہ کرتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے سن 2017ء میں جی ڈی پی کا 2 اعشاریہ 8995 فیصد تعلیم پر خرچ کیا۔

ورلڈ بینک سے حاصل کردہ اعدادوشمار کے مطابق سن 2006 سے لے کر سن 2018ء تک یعنی موجودہ حکومت کی ابتدا تک تعلیم پر جی ڈی پی کے 2 فیصد سے لے کر 3 فیصد تک ہی خرچ کیا گیا۔ یہ عدد کبھی3 فیصد سے زیادہ نہ ہوسکا۔ 

 pakistan public spending on education total percent of gdp wb data

ناروے میں جی ڈی پی کا 6 اعشاریہ 4 فیصد خرچ کیا جاتا ہے، نیوزی لینڈ میں 6 اعشاریہ 3 فیصد ، برطانیہ میں 6 اعشاریہ 2 فیصد جبکہ امریکا میں 6 اعشاریہ 1 فیصد تعلیم پر خرچ ہوتا ہے اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج ہم ایسے ہی ممالک کو ترقی یافتہ کہتے ہیں اور خود کو ترقی پذیر ممالک میں شمار کرتے ہیں۔ 

علم کی اہمیت اور حکومتی رویہ 

انسان ماں کی گود سے لے کر قبر کی آغوش تک مسلسل علم حاصل کرتا ہے جو دنیا میں ہر بات کو سمجھنے، اس کے معنی اخذ کرنے، اپنا ردِ عمل دینے اور آگے بڑھنے سے لے کر پیسہ کمانے تک ہر جگہ انسان کی مدد کرتا ہے۔

پاکستان  میں گزشتہ روز حکومت نے 15 سے 30 ستمبر تک تعلیمی ادارے کھولنے کا اعلان کیا جبکہ ملک بھر میں سینما، پارکس، ٹرانسپورٹ اور کاروباری سرگرمیوں پر پہلے ہی پابندی ختم کردی گئی۔

ملک بھر میں تعلیم پر وفاقی و صوبائی حکومتوں کے رویے سے صاف ظاہر ہے کہ عوام تعلیم حاصل کریں یا نہ کریں، حکومت کو اِس سے کوئی غرض نہیں، صرف کاروبار بند نہیں ہونا چاہئے۔ 

تعلیم بطور ریاست کی اہم ذمہ داری 

ریاستیں دنیا بھر میں  تعلیم کو ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھتی ہیں یا پھر تعلیمی اداروں کو غیر منافع بخش تنظیموں کے تحت چلایا جاتا ہے لیکن پاکستان ابتدا ہی سے وڈیرہ شاہی اور بدعنوان حکمرانوں کے ہاتھوں میں گروی رکھ دیا گیا، اِس لیے ملک میں کاروبار اور تعلیم سمیت ہر شعبے کو تباہ کر دیا گیا۔

جدید تہذیب اور چارٹر کے تحت عالمی سطح پر تعلیم کو بنیادی شہری حق تسلیم کیا گیا ہے اور ترقی یافتہ ممالک خود شہریوں کی تعلیم کی ذمہ داری حکومت پر ڈالتے دکھائی دیتے ہیں۔ تعلیمی فیسیں حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہیں یا پھر انتہائی کم ہوتی ہیں جس سے تعلیم ہر شخص تک پہنچ جاتی ہے۔

وزیرِ اعظم عمران خان اگر پاکستان کو ایک جدید ملک بنانا چاہتے ہیں تو کاروبار، قومی اداروں اور بدعنوانی کے سدِ باب کے ساتھ ساتھ تعلیم کو بھی ایک قومی مسئلہ سمجھتے ہوئے اس کے حل کی راہیں تلاش کرنا ہوں گی۔ جو قوم علم درست طریقے سے حاصل نہیں کرتی وہ اپنا کام ٹھیک نہیں کرتی اور کام ٹھیک نہ کرنے والے کبھی ترقی نہیں کرتے۔

Related Posts