غزہ کی حمایت میں خواتین ننگی ہوکر سڑکوں پر آگئیں

مقبول خبریں

کالمز

zia
کیا اسرائیل 2040ء تک باقی رہ سکے گا؟
zia
بربرا: پیرس کی شہزادی
"A Karachi Journalist's Heartfelt Plea to the Pakistan Army"
کراچی کے صحافی کی عسکری قیادت سے اپیل

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

ایفل ٹاور کے سامنے خواتین کا برہنہ احتجاج، فوٹو ایکس

فرانس کے دار الحکومت پیرس میں غزہ کے حق میں فیمنسٹ خواتین کا برہنہ احتجاج عالمی ذرائع ابلاغ میں خاصی توجہ کا مرکز بن گیا۔

یہ مظاہرہ انسانی حقوق، آزادیِ اظہار اور فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کے خلاف بطور احتجاج کیا گیا۔ مظاہرے میں شریک خواتین نے اپنے جسموں پر فلسطینی جھنڈے کے رنگوں کے ساتھ نعرے اور علامتی پیغامات تحریر کیے تھے، جن میں “Free Gaza”، “Stop Genocide” اور “Silence is Complicity” جیسے جملے شامل تھے۔
یہ مظاہرہ ایک مخصوص طرز کی مزاحمت کا اظہار تھا، جسے “body as a canvas” یعنی “جسم کو بطور پیغام رسانی کا ذریعہ” استعمال کرنا کہا جاتا ہے۔ اس طرزِ احتجاج کا مقصد نہ صرف میڈیا کی توجہ حاصل کرنا ہوتا ہے، بلکہ عام لوگوں کو جھنجھوڑنا بھی کہ وہ مظلوموں کی آواز سنیں۔

پیرس کی یہ فیمنسٹ مظاہرین ایک معروف تنظیم سے وابستہ تھیں، جو ماضی میں بھی عورتوں کے حقوق، جنسی تشدد اور سماجی ناانصافی کے خلاف اسی انداز میں احتجاج کرتی رہی ہے۔
یہ مظاہرہ کئی حلقوں میں بحث کا باعث بنا۔ کچھ لوگوں نے اسے ایک جرات مندانہ قدم قرار دیا جو خاموش دنیا کو جگانے کی کوشش ہے، خاص طور پر اس وقت جب مغربی میڈیا اور حکومتیں فلسطین میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموش ہیں۔

دوسری طرف بعض ناقدین نے اس طرزِ احتجاج کو مغربی فیمنزم کی مخصوص علامت اور اسلامی اقدار سے متصادم قرار دیا اور کہا کہ برہنگی کسی بھی مظلوم قوم کی نمائندگی کا موزوں طریقہ نہیں۔
مسلم دنیا میں اس احتجاج پر ملا جلا ردعمل آیا۔ کچھ حلقوں نے اس عمل کو سراہا کہ مغرب میں عام شہری بھی فلسطینیوں کے حق میں آواز بلند کر رہے ہیں، چاہے وہ جس انداز میں ہو، جبکہ دیگر افراد نے کہا کہ احتجاج کے پیچھے نیت نیک سہی، لیکن طریقہ اسلامی اخلاقیات سے متصادم ہے اور اس سے وہ پیغام دھندلا جاتا ہے جس کی اصل میں ضرورت ہے، یعنی فلسطینیوں پر ہونے والے مظالم کو اجاگر کرنا۔
منتظمات کا کہنا ہے کہ یہ احتجاج اس بات کا ثبوت ہے کہ غزہ کے خلاف ہونے والے مظالم اب ایک مخصوص قوم یا خطے کا مسئلہ نہیں رہے، بلکہ انسانی ضمیر کا امتحان بن چکے ہیں۔

اگرچہ احتجاج کا انداز متنازع ہو سکتا ہے، لیکن اس نے ایک بار پھر دنیا کو یاد دلایا کہ خاموشی کبھی انصاف کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم صرف احتجاجی تصاویر پر تبصرے کرتے رہیں گے، یا واقعی فلسطینیوں کے لیے عملی قدم بھی اٹھائیں گے؟

Related Posts