ماہرینِ قانون نے کراچی کے بلدیاتی اداروں میں ایک ادارے سے دوسرے ادارے میں تبادلہ کرانے والے افسران کو واپس بھیجنے کی باتیں مضحکہ خیز قرار دی ہیں۔
تفصیلات کے مطابق ماہرینِ قانون کی رائے میں کے ایم سی کے بطن سے جنم لینے والے اداروں میں بھرتی ہونے والے یا کے ایم سی سے ڈی ایم سیز میں جانے والے ملازمین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ایک ادارے سے دوسرے میں جا سکتے ہیں۔ ایس ایل جی اے 2013ء کا چیپٹر 9 (سروسز) اس کی وضاحت کرتا ہے۔سپریم کورٹ کے احکامات کی غلط تشریح کر کے بلدیاتی ملازمین میں بے چینی پھیلائی جا رہی ہے تاکہ این ڈی ایم اے کی راہ میں رکاوٹ پیدا کر کے کرپشن کو پروان چڑھایا جائے ۔
وکلاء اور ماہرینِ قانون کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے احکامات کی درست تشریح کر کےسندھ لوکل گورنمنٹ بورڈ نے بالکل درست فیصلہ کیا کہ محکمۂ جنگلات سندھ ، واٹر بورڈ، کے ڈی اے، ایم ڈی اے، ایل ڈی اے، بلڈنگ کنٹرول یا کسی اورادارے سے آنے والے افسران و ملازمین کو واپس ان کے اپنے اداروں میں بھیج دیا گیا جہاں وہ بھرتی ہوئے تھے۔ تاہم بلدیاتی اداروں، کے ایم سی اور ڈی ایم سی کے ملازمین پر یہ احکامات اس لیے پورے نہیں اترتے کیونکہ 1987ء میں بلدیہ عظمی کراچی کو چار زونل میونسپل کمیٹیوں میں تقسیم کیا گیا۔زیڈ ایم سیز اور کے ایم سی ایک ہی سروس پبلک سرونٹ اور ڈسٹرکٹ کونسل کے ملازمین ہیں۔
قانونی ماہرین کے مطابق یہ آئینی باڈی ہے جس پر سپریم کورٹ کے فیصلے کا ااطلاق نہیں ہوتا۔ قانونی ماہرین کے مطابق 1994ء میں زیڈ ایم سیزختم کرکےدوبارہ ایک کے ایم سی کردی گئی۔کیپٹن فہیم زماں کو کے ایم سی کا ایڈمنسٹریٹر بنایا گیا تھا۔ کے ایم سی، ڈی ایم سیز ایک سروس ہے۔یاد رہے کہ کے ایم سی کو دوبارہ تقسیم کر کے 1997ء میں 5 ڈی ایم سیز میں تقسیم کردیا گیا۔ سروس ایک نہ ہوتی تو کیسے ایڈجسٹ ہوتے۔2001ء میں سٹی گورنمنٹ بنا کر 18ٹاؤنز بنا دیئے گئے۔
سٹی گورنمنٹ کے تحت کے ایم سیز اور ڈی ایم سیز کے ملازمین کو ٹاؤنز اور سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ میں کھپایا گیا۔ 2009ء اور 2011ء میں کے ایم سی بحال کردی گئی۔ 2013ء میں ایس ایل جی اے بنا دیا گیا اور 6 ڈی ایم سیز بنا دی گئیں۔سروس ایک تھی تو یہ سب ممکن ہوا۔ رواں برس ایک اور ڈی ایم سی بنا کر 7 ڈی ایم سیز کردی گئیں۔ کراچی کے بلدیاتی ادارے کے ایم سی اور ڈی ایم سیز ایک دوسرے کے اداروں میں تبادلوں اور تقرریوں کے مجاز ہیں۔
ایس ایل جی اے کا چیپٹر 9سروسز کی وضاحت کرتا ہے۔ ایک ہی سروس ہونے کی بناء پر پنشن، گریجویٹی، پراوڈنٹ فنڈ کے ایم سی میں جمع ہوتا ہے۔ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ڈی ایم سیز کے ملازمین کو کے ایم سی سے ہی بقایا جات یا ریٹائرمنٹ کے واجبات ادا کیے جاتے ہیں۔اس حوالے سے کراچی آفیسرز ویلفیئر ایسوسی ایشن کے قانونی مشیران سہیل ظفر، بہادر خان ایڈووکیٹ، اکرم خان ایڈووکیٹ اور محمد ابراہیم سومرو ایڈووکیٹ نے وائس چیئرمین عبدالحفیظ انصاری نے بھی اس بات کی تصدیق کی اور کہا کہ اگر کے ایم سی اور ڈی ایم سیز کے ملازمین کو سپریم کورٹ کے نام پر تنگ کیا گیا تو سپریم کورٹ سے رجوع کر کے انصاف کے تقاضے پورے کیے جائیں گے۔
یہ بھی پڑھیں: وسیم اختر جاتے جاتے افسران کے تبادلے کر گئے، تحقیقات شروع