طالبان اور امریکا کے درمیان ہونیوالے امن معاہدے کے تحت افغانستان سے امریکی افواج کا انخلاء کا عمل شروع ہوگیا ہے، معاہدے کے تحت امریکا 135 روز میں افغانستان میں موجود13 ہزار فوجیوں کو کم کرکے 8ہزار6 سو تک کردیگا، جہاں غیرملکی افواج کی واپسی سے امن کی راہ ہموار ہوئی ہے وہیں افغانستان میں ایک نئے سیاسی تنازعہ نے جنم لے لیا ہے۔ گزشتہ روز سابق صدر اشرف غنی نے دوسری مدت کے لیے افغانستان کے صدر کے عہدے کا حلف لیا وہیں سابق چیف ایگزیکٹو عبداللہ عبداللہ نے اشرف غنی کو صدر ماننے سے انکار کرتے ہوئے خود بھی صدر کا حلف اٹھا کر ایک سیاسی بحران پیدا کردیا ہے۔
افغان الیکشن کمیشن کے مطابق اشرف غنی صدر قرار پائے ہیں اور گزشتہ روز انہوں نے صدارتی محل میں ہی دوسری مدت کیلئے حلف اٹھایا جبکہ امریکا نے افغانستان میں پیدا ہونیوالے نئے سیاسی بحران پر تشویش کا اظہار کیا ہے کیونکہ اس سے امن عمل متاثر ہوسکتا ہے۔
امریکی وزیرخارجہ مائیک پومپیو کا کہنا ہے کہ افغانستان میں امن کا قیام اور ایک مضبوط اور متحد حکومت ہماری ترجیح ہے لیکن متوازی حکومت کسی صورت قابل قبول نہیں ہے جبکہ انہوں نے بھی اشرف غنی کو ہی صدر کہہ کر مخاطب کرکے عبداللہ عبداللہ کو مسترد کردیا ہے جبکہ وزیراعظم پاکستان عمران خان نے بھی اشرف غنی کو ہی صدر کا حلف اٹھانے پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے ملکر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔
دوحہ میں ہونیوالے امن معاہدے کے بعد امریکی افواج کیخلاف طالبان کسی بھی قسم کی کارروائی نہ کرنے کے عہد پر کاربند ہیں جبکہ گزشتہ دنوں ہونیوالے دھماکوں سے بھی طالبان نے اظہار لاتعلقی کیا ہے اور اہم بات تو یہ ہے کہ افغان صدر اشرف غنی جو ابتداء میں امن معاہدے پر من وعن عمل کرنے سے انکاری تھے اور بھی طالبان قیدیوں کی رہائی کے معاملے پر رضامند دکھائی دے رہے ہیں جس کے بعد انٹراافغان مذاکرات کیلئے امید کی کرن پیدا ہوگئی ہے۔
افغانستان میں جاری کشیدگی ختم کرانے کی ماضی میں کی جانیوالی کوششیں بارآور ثابت نہیں ہوسکیں کیونکہ افغان انتظامیہ اور کچھ مخفی قوتیں افغانستان میں امن نہیں دیکھنا چاہتیں اس لیئے افغانستان میں امن کیلئے سیاسی بحران زہر قاتل ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ امن دشمن قوتیں افغانستان میں شورش پیدا کرکے حالات کی خرابی کا فائدہ اٹھاکر ایک بار پھر افغانستان میں کشت وخون کا کھیل شروع کروانے کے درپہ ہیں اگر سیاسی بحران ختم نہ ہوا تو اشرف غنی اور عبداللہ عبداللہ کا جھگڑا ملک میں امن ، ترقی اور خوشحالی کی راہ دیکھنے والے افغان عوام کے مستقبل کیلئے ایک ڈرائونا خواب بن سکتا ہے۔