کاغذ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، نئی کتابوں کی اشاعت ناممکن دکھائی دینے لگی

مقبول خبریں

کالمز

"Conspiracies of the Elites Exposed!"
سرمایہ داروں کی خوشحالی، عوام کی غربت، پاکستان کی معیشت کا کھلا تضاد
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
پرتگال اور پاکستان کے درمیان 75 سالہ خوشگوار سفارتی تعلقات
Munir-Ahmed-OPED-750x750-1
دھوکا دہی کے بدلے امن انعام؟

موسم

قیمتیں

ٹرانسپورٹ

کاغذ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، کتابوں کی اشاعت ناممکن دکھائی دینے لگی
کاغذ کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ، کتابوں کی اشاعت ناممکن دکھائی دینے لگی

لاہور: کاغذ کی قیمتوں میں 200 فیصد اضافے کے بعد ملک میں نئی کتابوں کی اشاعت ناممکن دکھائی دینے لگی ہے۔

تفصیلات کے مطابق آل پاکستان مرچنٹ ایسوسی ایشن کے سابق نائب چیئرمین عابد ناصر نے کہا ہے کہ درآمدی کاغذ پر بلند شرح ٹیکس، روپے کی قدرمیں نمایاں کمی، ڈالر کے مہنگا ہونے اور کاغذ کی مقامی ملز کی منافع خوری کے سبب ملک بھر میں کاغذ کا سنگین بحران ہوگیا ہے۔

اُن کا کہنا تھا کہ اِس کے نتیجے میں ملک میں کاغذ کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کررہی ہیں، آنے والے وقت میں بچوں کیلئے کتابیں دستیاب نہیں ہونگی اور جو ہونگی اُن کی قیمتیں عام آدمی کی جیب برداشت نہیں کرسکے گی۔

عابد ناصر نے کہا کہ بیرونِ ملک سے درآمد کی جانے والی کتب ڈیوٹی فری ہیں جو ملائیشیا، سنگاپور، انڈونیشیا وغیرہ میں چھپوا کر درآمد کی جارہی ہیں۔ اُن کا کہنا تھا کہ ہر قسم کا شائع شدہ مواد بھی ڈیوٹی فری ہے جس کی وجہ سے اشاعتی صنعت تباہی کے دہانے پر ہے۔

یہ بھی پڑھیں:

ٹیکنالوجی کمپنیوں نے کرپٹو کے ذریعے سے ادائیگیوں پر پابندی لگادی

آل پاکستان مرچنٹ ایسوسی ایشن کے سابق نائب چیئرمین عابد ناصر نے مزید کہا کہ اشاعتی صنعت سے بڑی تعداد میں لوگوں کا روزگار وابستہ ہے، انہوں نے اس بات پر تنقید کی کہ یہ ایک المیہ ہے کہ شائع شدہ کتب اور مواد کو بیرونِ ملک سے درآمد کرنے پر کوئی ڈیوٹی عائد نہیں ہے۔

معلوم رہے کہ حکومت نے کاغذ کی درآمد پر 70 فیصد ڈیوٹی عائد کردی تھی جو کتابوں اور دیگر مواد کی اشاعت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

وفاقی بجٹ برائے سال 23-2022 کی دستاویز کے مطابق درآمدی کاغذ پر 20 فیصد درآمدی ڈیوٹی عائد ہوتی ہے جس کے بعد 17.5 فیصد سیلز ٹیکس، 20 فیصد کسٹم ڈیوٹی، 29 فیصد اینٹی ڈمپنگ ڈیوٹی اور 6 فیصد اضافی ڈیوٹی لاگو ہوتی ہے۔

Related Posts