پاکستان میں سی پیک کا باقاعدہ آغاز مئی 2013 میں چینی وزیر اعظم لی کی چیانگ کے دورہ اسلام آباد کے موقع پر کیا گیا۔ اس وقت پاکستان بم دھماکوں، بجلی کی قلت اور کمزور مالیاتی ترقی جیسے سنگین مسائل و مشکلات سے نبرد آزما تھا۔
ان حالات میں ایک دوست کی حیثیت سے چین نے پاکستان کی طرف دست تعاون بڑھایا اور سی پیک کی صورت میں پاکستان کے معاشی استحکام کا منصوبہ شروع کر دیا۔ نواز شریف بطور وزیر اعظم پاکستان یقیناً چین کے ساتھ مل کر سی پیک شروع کرنے والوں میں شامل تھے۔ ان کے دور میں سی پیک پر تیزی سے کام شروع ہوا، چنانچہ کچھ ہی عرصے میں سی پیک کے فوائد سامنے آنا شروع ہوگئے۔ اس کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ جون 2013 میں پاکستان کا کل بیرونی قرضہ 44.35 بلین ڈالر تھا، جس کا صرف 9.3 حصہ چین کا تھا، دوسری طرف بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کے مطابق اپریل 2021 تک پاکستان کا بیرونی قرضہ 90.12 بلین ڈالر تک بڑھ چکا تھا۔ قرضوں میں یہ خطرناک حد تک اضافہ اس لیے ہوا کہ بہت جلد حکومت بدلنے کے بعد سی پیک پر عمل در آمد بھی سست پڑگیا۔
اس کے باوجود چین نے آج تک پاکستان کی لڑکھڑاتی معیشت کو سہارا دینے کیلئے کسی نہ کسی حد تک سرمایہ کاری جاری رکھی اور اس نے اپنے قرضوں کی واپسی کے سلسلے میں آئی ایم ایف جیسے ہتھکنڈے استعمال نہیں کیے۔
مزید برآں چین نے پاکستان کو بہت سے شعبوں میں مالیاتی ہی نہیں تکنیکی معاونت بھی فراہم کی۔ بالخصوص سی پیک کے شمال مغربی روٹ پر زبردست کام ہوا۔ اس میدان میں چین کی سرکاری اور نجی دونوں شعبوں کی کمپنیاں دن رات مصروف عمل رہیں۔ چین اور پاکستان کے درمیان “اسٹرٹیجک” روابط ہمیشہ سے مضبوط رہے ہیں اور یہ تعلقات ہمیشہ پروان چڑھتے رہے ہیں اور اس حوالے سے دونوں ہی ممالک ایک دوسرے کی توقعات پر پورا اترے ہیں۔
تاہم اس سب کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ پاکستان سی پیک سے کچھ زیادہ اور دیرپا فوائد نہیں سمیٹ سکا۔ کئی تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ دراصل سی پیک کی بنیاد میں کچھ نقص تھا، اس حوالے سے کیے گئے معاہدوں میں پاکستان کی طرف سے کچھ کمزوری دکھائی گئی۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ پاکستانی ملازمین کو جان بوجھ کر سی پیک کے اہم منصوبوں کے اہم کاموں سے دور رکھنے کی کوشش کی گئی، چنانچہ اس طرح کی باتوں کو بنیاد بنا کر کچھ حلقوں نے سی پیک کو متنازع بنانے کی کوشش کی اور اس کا اثر بھی ہوا۔ بتایا جاتا ہے کہ اس مہم کے پیچھے سامراجی عناصر کارفرما تھے۔ چین چونکہ اس طرح کی سیاسی مہم جوئیوں میں نہیں پڑتا، اس لیے اس نے پاکستان کو بھی خاموشی کے ساتھ حالات میں تبدیلی کے انتظار کا مشورہ دیا۔
سی پیک کو پاکستان اور خطے کے معاشی حالات کیلئے بجا طور پر گیم چینجر سمجھا جا رہا تھا، یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے پر عمل در آمد تیز ہوتے ہی اس کے دشمنوں کے کان بھی کھڑے ہوگئے اور انہوں نے اس کو رول بیک کرنے کیلئے سازشیں تیز کر دیں، چنانچہ رفتہ رفتہ وہ سی پیک کو کمزور کرنے میں کامیاب ہوگئے، رپورٹس ظاہر کرتی ہیں کہ موجودہ دور میں سی پیک منصوبوں کی رفتار خاصی محدود ہوچکی ہے اور چینی اس صورتحال سے مطمئن نہیں ہیں۔
یہ صورتحال عمران خان انتظامیہ کے دوران شروع ہوئی، اس دور میں سی پیک سے جڑے منصوبوں کو محدود یا غیر فعال کرنے کی کوشش ہوئی۔ امریکا کے ساتھ ساتھ بھارت کو بھی سی پیک سے خاص خار ہے، چنانچہ بھارت سی پیک کو ناکام بنانے کیلئے مسئلہ کشمیر کو بہانہ بنا رہا ہے، کیونکہ سی پیک کا بہت ہی اہم روٹ مسئلہ کشمیر سے وابستہ گلگت بلتستان سے ہوکر گزرتا ہے۔ در حقیقت بھارت اس منصوبے کو بحر ہند میں چین کی جغرافیائی ترقی اور اثر و رسوخ کے طور پر دیکھتا ہے۔ گویا اس کیلئے پاکستان کی ترقی سے زیادہ خطے میں چین کا اثر رسوخ کھل رہا ہے۔ یہ اس لیے بھی ہے کہ امریکا کے اہم اتحادی کی حیثیت سے بھارت امریکی آشیر باد سے خطے میں اپنی بالا دستی قائم کرنا چاہتا ہے۔
یہ خدشہ امریکا کو بھی بے چین کئے رکھے ہوئے ہے کہ چین بیلٹ اینڈ روڈ انیشیٹو کے ذریعے دراصل بحر ہند میں اپنی طاقت بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے اور اس کیلئے پاکستان کی تزویراتی اہمیت کی حامل گوادر بندرگاہ کو استعمال کرسکتا ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ امریکا کسی صورت چین کو کامیاب نہیں ہونے دینا چاہتا، کیونکہ وہ سمجھتا ہے کہ سی پیک اور بی آر آئی چین کیلئے خطے میں اپنی طاقت بڑھانے کا ہتھیار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر رسوخ اور کردار سے خائف امریکا چین کو اپنے عزائم میں ناکام بنانے کیلئے پاکستان پر دباؤ ڈالتا رہتا ہے۔ ساتھ ہی امریکا خطے میں چینی بالادستی کو چیلنج کرنے کیلئے ہندوستان کو بھی استعمال کر رہا ہے۔ پاکستان پر دباؤ کے سلسلے میں ایک حربہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے کہ چین پاکستان کی مدد کے لیے رضامندی سے قبل سی پیک میں اپنے منصوبوں کا حجم ظاہر کرے اور اسی کو بنیاد بنا کر امریکا کے زیر اثر عالمی مالیاتی ادارہ پاکستان کے ساتھ ڈیل کو معلق رکھنے کی کوشش کرتا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ چائنا پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کو عمل درآمد کے باب میں سنجیدہ مشکلات کا سامنا ہے، یہی وجہ ہے کہ مختلف النوع مسائل کی وجہ سے سی پیک کے بہت سے منصوبے تاخیر کا شکار ہیں یا مکمل طور پر روک دیے گئے ہیں۔ ان حالات میں چینی سرمایہ کار پاکستان میں نئے منصوبوں کی مالی معاونت کے حوالے سے مسلسل غیر یقینی کا سامنا کر رہے ہیں۔
بیجنگ 6 بلین امریکی ڈالر کے بیل آؤٹ بنڈل پروگرام کی تجدید کے لیے پاکستان کی جانب سے آئی ایم ایف کی نامناسب شرائط قبول کرنے پر خوش نہیں ہے جو پاکستان کے کاروبار سے متعلق مسائل کو بڑھا سکتا ہے اور چینی قرضوں کی تحقیقات کا باعث بن سکتا ہے، چنانچہ اس چیز نے سی پیک کے مستقبل کو بھیانک خواب بنا کر رکھ دیا ہے۔
چینی منصوبوں کے ممکنہ فوائد کو حاصل کرنے کے لیے تین شرائط ہیں: انسانی سرمایہ، مقامی رابطہ اور تجارتی ماحول جو آف شور ڈائریکٹ لون کو راغب کرے۔ بد قسمتی سے ان ضروریات کی موجودہ حالت ان 19 شعبوں میں مکمل طور پر کمزور ہے جن سے یہ راستہ گزرتا ہے۔ سی پیک کے ممکنہ فوائد کے حصول کے لیے پاکستان کو تین امور کا خیال رکھنا ہوگا۔ سب سے پہلے پاکستان کو اپنا ترقیاتی ڈھانچہ مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے پر توجہ دینا ہوگی۔ دوسرے ٹرانسپورٹ ڈھانچے کو سی پیک کی ضروریات سے ہم آہنگ کرنا ہوگا۔ صوبائی حکومتیں مقامی سڑکوں اور نقل و حمل کے نیٹ ورکس کو مضبوط بنانے پر توجہ دیں۔ تیسرے تعلیم اور ہنر کے ذریعے انسانی سرمائے کو جدید بنانے پر توجہ دی جائے۔ افرادی قوت کو زیادہ سے زیادہ ہنر مند بنایا جائے۔ اس کے بغیر محض چین کی طرف سے سرمایہ کاری کا کچھ فائدہ نہ ہوگا اور اسی صورتحال کے باعث چینی سرمایہ کار بھی سرمایہ کاری سے گریزاں ہیں۔ یہی وہ وجوہات ہیں جن کی بنا پر پاکستان تا حال سی پیک سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھا سکا ہے۔