تہران کیوں نہیں؟ / پہلا حصہ

کالمز

zia
ترکی کا پیمانۂ صبر لبریز، اب کیا ہوگا؟
zia
جنوبی شام پر اسرائیلی قبضے کی تیاری؟
Eilat Port Remains Permanently Shut After 19-Month Suspension
انیس (19) ماہ سے معطل دجالی بندرگاہ ایلات کی مستقل بندش
US and Russia: Breaking Traditions

ہمارا خیال تھا کہ شام کے حوالے سے چھ سات اقساط پر مشتمل کالم لکھ کر پوری تفصیل سے بتائیں گے کہ اس ملک میں وہ کیا غلطیاں ہوئیں جو اس کی مکمل تباہی کا سبب بنیں۔ وہ غلطیاں جو شام کے سابق صدر بشار الاسد، ایران، سعودی عرب، ترکی، اور مقامی سنی آبادی سمیت سب نے کیں۔ مگر ایک دو دن کی سوچ بچار کے بعد یہ ارادہ ترک کرنا پڑا۔ کیونکہ تعصب کے ماحول میں معلومات کا ذخیرہ بانٹنا متعصب عناصر کے ہاتھ مضبوط کرنے کے مترادف ہوتا ہے۔

یہ عناصر غلطیوں سے سیکھتے نہیں بلکہ انہیں ایک دوسرے کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ اور تعصب کو مزید ہوا دیتے ہیں۔ متعصب شیعہ ہو خواہ سنی، دونوں سے دور رہنا واجب ہے۔ یہ وہ مخلوق ہے جو اپنے تعصب کی تسکین کے لئے فسلطین کاز کو بھی قربان کرنے سے دریغ نہیں کرتی۔

سو مناسب یہی ہوگا کہ دو قسطوں میں کچھ سرسری نوعیت کے اشارے دے کر بس اتنی بات کرلی جائے جو غیر متعصب ذہن کے لئے مفید ثابت ہو۔ اور غلطیوں سے سیکھنے کی کوئی سبیل پیدا ہو۔ سب سے پہلے تو یہ بات ذہن نشین کر لینی چاہئے کہ ایران اور بشار حکومت کا تعلق کوئی رومانٹک معاملہ نہ تھا۔ یہ سرے سے دو بھائیوں والا معاملہ بھی نہ تھا۔

بشار الاسد کی فیملی علوی فرقے سے تعلق رکھتی ہے۔ اور علوی ایسا فرقہ ہے جسے تیسری صدی ہجری سے لگ بھگ گیارہ سو سال اس بحران کا سامنا رہا کہ سنی اور شیعہ دونوں ہی اس کی تکفیر کے قائل تھے۔ سبب اس تکفیر کا یہ رہا یہ کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی خدائی کے قائل تھے۔یوں سنی اور شیعہ دونوں ہی انہیں دائرہ اسلام سے خارج مانتے تھے۔ خود علویوں کا طرز عمل یہ رہا کہ یہ زیادہ شدید مخالف اس شیعہ مکتب فکر کے تھے جس سے یہ نکلے تھے۔ سنیوں کے ساتھ ان کا معاملہ نسبتاً نرمی کا تھا۔

یہ 1970 تھا جب شام کے صدر حافظ الاسد نے لبنان کی سپریم شیعہ کونسل کے سربراہ موسی صدر اور آیت اللہ حسن شیرازی کے ساتھ یہ معاملہ اٹھایا کہ علویوں کو شیعہ تسلیم کیا جائے۔ ہم سب جانتے ہی ہیں کہ حکمرانوں کو اپنے مطلب کے فتوے شیعہ سنی تفریق کے بغیر بسہولت مل جایا کرتے ہیں۔ یوں صدیوں بعد علوی شیعہ تسلیم کر لئے گئے۔

آدھا ہمارا، آدھا تمہارا۔۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ بدلے میں حافظ الاسد نے ایرانی انقلابیوں کی مالی مدد بھی کی جنہوں آگے چل کر شاہ ایران کا تختہ الٹا۔ مگر قیمت کی اس ادائیگی سے آگے حافظ الاسد نہیں گئے۔ انہوں نے اپنا فاصلہ برقرار رکھا۔ اس کے برخلاف وہ عرب ممالک کی جانب زیادہ جھکاؤ رکھتے تھے۔ جس کی سب سے بڑی مثال عرب اسرائیل جنگیں ہیں جن میں شام شریک رہا۔

آگے بڑھنے سے قبل ایک سیاسی نکتہ وسیع سیاسی تناظر میں سمجھنا بہت ضروری ہے۔ تاکہ آپ اس سیاسی معاملے کو سیاسی نظر سے ہی دیکھ سکیں۔ نکتہ یہ ہے کہ توسیع پسند ریاست اس جدید دور میں دو طرح سے توسیع حاصل کرتی ہے۔ یا تو فزیکل توسیع ہوتی ہے کہ کسی ملک پر حملہ کیا اور اس کا کچھ علاقہ قبضہ کر لیا۔ قبضے کے بعد ایک عدد ریفرینڈم کروا لیا جاتا ہے۔ جس میں مقبوضہ علاقے کے لوگ توسیع کے حق میں رائے دیدیتے ہیں اور یوں قبضے کا عمل مکمل ہوجاتا ہے۔

توسیع کی دوسری اور مقبول صورت یہ ہے کہ کسی ملک میں سیاسی توسیع حاصل کرلی جاتی ہے۔ یعنی اس ملک کی سیاسی خود مختاری پر قبضہ کر کے وہاں کے فیصلوں کا اختیار اپنے کنٹرول میں لے لیا جاتا ہے۔ اس دوسری قسم کی توسیع کی ایک مثال خود ہمارا پاکستان بھی ہے۔

توسیع پسند ریاست کی اولین کوشش یہ ہوتی ہے کہ ہدف ملک کے لوگوں کی سوچ تبدیل کردی جائے۔ اس مقصد کے لئے لٹریچر، تقاریر، تعلیم اور تبلیغ سمیت سارے حربے اختیار کئے جاتے ہیں۔ مثلا مغربی ممالک جب ایشیا اور افریقہ میں توسیع حاصل کر رہے تھے تو کلونیل دور میں پادریوں کے دستے بھی پیچھے سے پہنچ جاتے۔ یہ پادری لوگوں کو مذہب کی تبدیلی پر آمادہ کرتے تھے۔ اور ہدف بھی یہ غریب شہریوں کو بناتے تھے۔ جنہیں مالی مدد کے ذریعے کرسچین بنا لیا جاتا۔ مگر زیادہ پائیدار اور دور رس نتائج وہ تعلیمی اداروں کی مدد سے حاصل کرتے تھے۔ وہ ایسے تعلیمی ادارے کھڑ کردیتے جو نئی نسل کی سوچ کو آقاؤں کے حق میں تشکیل دیدیتے تھے۔ فورٹ ویلیم کالج اور علی گڑھ یونیورسٹی نے یہی کیا کہ نہیں ؟اور ان اداروں سے پڑھ کر نکلنے والے اپنے آقاؤں کے وفادار ثابت ہوئے کہ نہیں ؟

عین یہی حکمت عملی ایران کے انقلابیوں کی بھی ہے۔ شام میں توسیع شروع سے ان کے ایجنڈے پر تھی مگر حافظ الاسد اور بشار دونوں ہی ایرانیوں کو پورا ہاتھ نہ پکڑاتے۔اگر آپ گہرائی میں جاکر دیکھیں گے تو نظر آئے گا کہ شام میں موجود اپنے مقدس مقامات تک ایرانی زائرین کی رسائی کے لئے بھی ایرانی انقلابیوں کو لمبے پاپڑ بیلنے پڑے ہیں۔

دمشق سے باہر پہلے خانہ فرہنگ کے قیام کے لئے لمبے منت ترلے چلے ہیں۔ ایرانیوں کو فری ہینڈ نہ دینے کی شامی حکمت عملی کا اندازہ اس سے لگا لیجئے کہ بشار نے اپنے پہلے دس سالوں میں ایران کو صرف ایک تعلیمی ادارہ قائم کرنے کی اجازت دی۔ اور یہ توسیع پسند پالیسی کی پیچھے مذکور صورتوں میں سے دوسری صورت تھی۔

لیکن جب 2011ء میں بشار کے خلاف یلغار کا آغاز ہوگیا تو بشار کے پاس واحد آپشن ایرانی ہی بچے۔ کیونکہ عرب ممالک تو باغیوں کے مددگار تھے۔ یوں پہلی بار ایران کی لاٹری نکل آئی۔ اب اسے سیاسی نہیں بلکہ فزیکل توسیع کا موقع ملنے جا رہا تھا۔ اور وہ بھی اتنا عجیب کہ اس کی فوجی قوت پر یہ الزام ہی نہ آنا تھا کہ اس نے شام پر قبضہ کر لیا ہے۔ فوج جانی بشار کی مدد کو تھی مگر مقاصد اس نے تہران کے پورے کرنے تھے۔ ایران سے ملنے والی عسکری مدد کے بدلے بشار نے انہیں کھلی چھوٹ دی کہ آپ لوگوں کو اثنا عشری شیعہ بنا سکتے ہیں۔ مگر علویوں کو نہیں صرف سنیوں کو۔

چنانچہ پیسہ پھینک تماشا دیکھ نے وہاں بھی وہی مناظر دکھانے شروع کردئے جو برٹش دور میں گورے پادری پہلے ہی باقی دنیا میں دکھا چکے تھے۔ صرف یہی نہیں ہوا بلکہ جن علاقوں سے سنیوں نے ہجرت کی وہاں افغانستان اور عراق سے شیعہ لاکر بسا دئے گئے۔ اور گھر بھی انہیں انہی سنیوں کے دیدیئے گئے جو جنگ سے بچنے کے لئے ہجرت اختیار کر گئے تھے۔

اس ضمن میں بشار حکومت کی جانب سے باقاعدہ قانون منظور کر لیا گیا کہ اگر کسی جائیداد کے نئے مالک کے خلاف پانچ سال تک کسی نے کوئی قانونی دعوی پیش نہ کیا تو جائیداد اسی کی ہوجائے گی۔ اب بھلا مہاجرین بھی کبھی پانچ سال میں لوٹتے ہیں ؟ ہم سب جانتے ہیں کہ افغان مہاجرین یہاں سے کتنے عرصے بعد لوٹے۔

رعایت اللہ فاروقی کے کالمز پڑھنے کیلئے لنک پر کلک کریں۔

صرف یہی نہیں کہ اہم شہروں میں غیرملکی شیعہ لاکر بسا دیئے گئے بلکہ بعض سٹریٹیجک نوعیت کے ویران علاقے بھی آباد کرکے غیر ملکی شیعوں سے بھر دیئے گئے۔ اب اگر آپ شیعہ ہیں تو ایک لمحے کو بس یہ تصور کر لیجئے کہ یہی کچھ اگر ایران میں کوئی سنی ملک کل کلاں کرے تو آپ کو اچھا لگے گا ؟کسی ملک کی ڈیموگرافی سے اس طرح کا کھلواڑ دنیا کے کس اخلاقی یا قانونی ضابطے کی رو سے درست ہے ؟ کیا ایران کے انقلابیوں کو ایک لمحے کے لئے بھی یہ خیال آیا کہ وہ سنی دنیا میں اپنے خلاف ایک شدید نفرت کی بنیاد رکھ رہے ہیں ؟ کیا اسرائیل اسی طرح وجود میں نہیں آیا ؟ مقامی فلسطینیوں کو مار کر بھگا دیا گیا اور ان کی جائیدادیں قبضہ کرلیں۔ اسی طرح بنا ہے اسرائیل ناں ؟

اب ذرا نتیجہ دیکھئے ! یہ ایران ہی تھا جس نے چینیوں سے کہا، ہماری سعودیوں سے صلح کراؤ۔ خیال یہ تھا کہ اس اقدام سے شام اور یمن پر قبضہ مستحکم ہوجائے گا۔ کیونکہ سعودی تازہ دوستی کی خاطر یہ قبضے قبول کرلیں گے۔ لیکن ہوا کیا ؟ جوں ہی بیجنگ سے ایران اور سعودی دوستی کا اعلان نشر ہوا، بشار کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔

اس نے ایران کے لئے جن عربوں کو چھوڑا تھا انہی عربوں کو ایران نے جپھی ڈال دی۔ اب بشار تھا تو عرب۔ وہ کیسے اس دوستی سے انکار کرسکتا تھا ؟ مگر ایک بڑا مسئلہ پیدا ہوگیا۔ جو عربوں کو جانتے ہیں وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ عربوں میں عرب ہونا اولیت رکھتا ہے۔

مذہب کا نمبر اس کے بعد آتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عرب دنیا میں عرب یہودی اور عرب عیسائی پورے وقار کے ساتھ صدیوں سے بسے چلے آرہے ہیں۔ بعض ممالک میں اب بھی ایسے عرب یہودی ہیں جن کی اسرائیل منتیں کرکے تھک گیا کہ اسرائیل شفٹ ہوجاؤ۔ مگر وہ نہیں مانتے۔ جانتے ہیں ان کااسرائیل کو جواب کیا تھا ؟ انہوں نے کہا، جن عرب یہودیوں کو آپ اسرائیل لے جا چکے وہ وہاں دوسرے درجے کے شہری ہیں۔ پہلے درجے کے شہری صرف یورپین یہودی ہیں۔

عرب ممالک میں ہمارے ساتھ ایسا کبھی نہیں ہوا۔ ہم یہاں عرب مسلمانوں کے ساتھ خوش ہیں، ہمیں نہیں چاہئے اسرائیل۔ سو ایرانی بنتے تو ڈیڑھ شانڑے ہیں مگر عرب مزاج کے اس پہلو کو نظر کرکے ان سے پولیٹکل کیلکولیشن میں ایسی مہلک غلطی ہو گئی تھی جو بہت ہی جلد شام میں ان کے اوسان خطاء کرنے والی تھی اور وہ بھی بشار الاسد کے ہاتھوں۔ (جاری ہے)