لاہور میں جمعیت علمائے اسلام کے نائب امیر، 70 سالہ عالم دین مفتی عزیز الرحمن کی طالب علم کے ساتھ جنسی استحصال کی ویڈیو وائرل ہوگئی۔
اس ویڈیو کے وائرل ہونے کے بعد پاکستان میں ٹوئٹر کے صارفین کی جانب سے مفتی عزیز الرحمن کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا گیا ہے بلکہ ملک بھر میں دینی مدارس میں بچوں کے ساتھ ہونے والے نارواں سلوک پر آواز اٹھائی گئی ہے۔ ایک ویڈیو میں، مفتی عزیز نے بدسلوکی کا اعتراف کیا ہے اور دوسری جانب مدرسوں میں کی جانے والی سیاست پر ویڈیو ریلیز کرنے کا الزام لگایا ہے، مفتی عزیز الرحمن کا کہنا ہے کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔
برسوں سے یہ دیکھا جارہا ہے، اور خاموشی سے تسلیم کیا جاتا رہا ہے کہ پاکستان میں بہت سارے مدارس (دینی مدارس) جنسی استحصال کا مرکز ہیں، جہاں دینی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بھیجے گئے بچوں کو اساتذہ کے ذریعے اکثر استحصال، ہراساں کیا جاتاہے، ان کے ساتھ زیادتی کی جاتی ہے۔ لیکن اس طرح کے واقعات کو رپورٹ کیوں نہیں کیا جاتا؟
پہلی بات،بہت سارے دینی علما جو ایسے مدارس چلاتے ہیں یا ان میں پڑھاتے ہیں وہ اپنے علاقوں میں بہت اثر و رسوخ رکھتے ہیں، جس کا وہ فائدہ اٹھاتے ہیں، اسی لئے ان پر جو بھی الزام عائد کیا جاتا ہے وہ اس کا باآسانی سامنا کرلیتے ہیں۔
دوسری بات، اس طرح کے الزامات کو اسلام پر حملے کے طور پر بھی تصورکیا جاتا ہے، تیسرا، مسئلہ یہ ہے کہ پاکستان میں بہت سارے مدارس رجسٹرڈ نہیں ہیں، اس طرح ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھنا بہت مشکل ہے۔
آخر میں، پاکستان میں بہت سارے مدارس ہزاروں بچوں کو ضروری خدمات فراہم کرتے ہیں۔ ان اضافی سہولیات کی وجہ سے متعدد غریب گھرانے کے افراد اپنے بچوں کو مدرسوں میں داخلہ دلوا دیتے ہیں، جب جنسی استحصال کے معاملات سامنے آتے ہیں تو، بہت سارے خاندان ان اداروں کے خلاف کارروائی کرنے سے ہچکچاتے ہیں۔
یہ بات واضح ہے کہ کوئی بھی مذہب اس طرح کے غلط کاموں کی تعلیم نہیں دیتا، لیکن جب تک ہم ان مجرموں کو ذمہ دار نہیں ٹھہراتے ہم اس ملک میں نوجوانوں کی زندگیوں کو بنیادی طور پر تباہ کرتے رہیں گے۔
جنسی طور پر ہراساں کرنے اور بدسلوکی کے معاملات پر ہمیں بیدار ہونے کی ضرورت ہے، ہم بحیثیت قوم اجتماعی طور پر اس طرح کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں لیکن ریاست کو بھی اس مسئلے کا فوری حل تلاش کرنے کے لئے کام کرنا چاہئے۔
مشہور و معروف علمائے کرام جو ایسے اداروں کے سربراہ ہیں، انھیں حالیہ زیادتی کے واقعات کو بھی تسلیم کرنا چاہئے اور مدرسوں کے نظام میں شفافیت کو یقینی بنانے کے لئے فوری اقدامات اٹھانے چاہئیں۔