حضرت مولانا فیض الرحمن عثمانی صاحب بڑے آدمی تھے بلکہ بہت بڑے آدمی تھے۔ جو آدمی جتنا بڑا ہوتا ہے اتنا متواضع، اتنا منکسر المزاج، اتنا خوش اخلاق اور اتنا عالی ظرف ہوتا ہے-
حضرت مولانا فیض الرحمن عثمانی کو جس نے دیکھا، جو انہیں جانتا ہے وہ گواہی دے گا کہ مولانا فیض الرحمن عثمانی کتنے بڑے آدمی تھے۔ وہ ایک عام دیہاتی طالب علم تھے۔ بڑے لوگوں سے کسب فیض کیا۔ استاذ المحدثین حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب اور حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی صاحب جیسے لوگوں نے اس ہیرے کو تراشا تھا اور انمول بنا دیا تھا۔ مولانا فیض الرحمن عثمانی فراغت کے بعد اسلام آباد تشریف لائے اور عملی زندگی کا آغاز کیا- آپ برادر گرامی مولانا عبدالسلام جلالی والی مسجد ابوذرغفاری جی ایٹ اسلام آباد کے امام و خطیب تھے-
آپ کا ایک وژن تھا۔ کچھ کر گزرنے کا جذبہ تھا۔ معمول سے مختلف سوچتے تھے۔ حالات کی نبض پر آپ کا ہاتھ تھا چنانچہ آپ نے دو کام کیے اور کمال کیے-
پہلا کام یہ کیا کہ اسلام آباد شہر کے وسط سے باہر نکلے، امامت خطابت اور دستیاب پوزیشن کو خیرباد کہا اور مری روڈ پر بر لب سڑک جا کر ڈیرہ ڈالا- جس وقت مولانا فیض الرحمن عثمانی نے یہ فیصلہ کیا اس وقت بہت سے لوگوں نے سوچا ہوگا کہ مولانا نے یہ کیا کیا؟ .لیکن وہ کسی کے تبصروں کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ کسی کی باتوں کی پرواہ نہ کیا کرتے تھے۔ تیشہ فرہاد لیے بہارہ کہو سے بھی آگے ایک ویرانے میں جا بیٹھے اور کسی کوہ کن کی طرح پہاڑی ٹیلوں سے الجھنے لگے اور پھر ان کے عزم مصمم نے ان پہاڑی ٹیلوں اور ویرانے کو علم کی وادی میں بدل کر رکھ دیا۔ مولانا استغناء اور خودداری کا پیکر تھے تعمیرات اور تعلیمی اخراجات کا ایک ساتھ بوجھ اٹھانا ممکن نہ تھا اس لیے اگرچہ اس وسیع قطعہ اراضی پر ان کے خوابوں کے مطابق تعمیرات تو نہ ہو پائیں اور عالیشان عمارت نہ بن پائی، اگرچہ دیگر بہت سے اداروں اور لوگوں کے مقابلے میں بہت کچھ بن گیا لیکن آج ادارہ علوم اسلامی میں آنے والا ہر شخص مولانا فیض الرحمن عثمانی کی بصیرت اور دور اندیشی کو داد دئیے بغیر نہیں رہ سکتا-
مولانا فیض الرحمن عثمانی نے دوسرا کام یہ کیا کہ اپنے وژن کے مطابق ”رجال العصر“پیدا کرنے کی محنت شروع کی۔ ایک چار دیواری کے اندر۔ ایک چھت تلے۔ بلکہ ایک ویرانے میں اور ایسے ماحول اور حالات میں جب اس طرح کا وژن پیش کرنا یا ایسی کوئی کوشش کرنا بھی سب کے ہاں معتوب ٹھہرنے کے مترادف تھا۔ اور سراسر دیوانگی سمجھا جاتا تھا ایسے میں مولانا فیض الرحمن عثمانی نے دینی اور عصری علوم کے امتزاج کی ترتیب بنائی۔
آپ کا اصل کمال یہ تھا کہ یہ سب کرنے کے لیے کسی بیساکھی کا سہارا لیا نہ کسی کے اشارے کے منتظر رہے۔ آپ نے ایک نظام تشکیل دیا۔ اس کے لیے افراد ڈھونڈے۔ ٹیم بنائی۔ لوگوں کے تندوتیز جملے سہے۔ طرح طرح کے الزام و دشنام کا سامنا کیا لیکن وقت نے ثابت کیا کہ جب آدمی اخلاص نیت، اپنی سوچ، اپنے وژن، دینی تقاضوں اور اکابر کی تعلیمات کو صحیح معنوں میں پیش نظر رکھ کر چلتا ہے تو ایک وقت آتا ہے جب لوگ اس کے کام کا نہ صرف یہ کے اعتراف کرتے ہیں بلکہ اس کی تقلید پر بھی مجبور ہوتے ہیں۔
مولانا فیض الرحمن عثمانی فرمایا کرتے تھے ہم نے جس وقت سے اس راستے کا انتخاب کیا اس وقت سے میں مسلسل کہہ رہا ہوں کہ ہم نے جو کیا وقت آنے ہر سب کو کرنا تو وہی پڑے گا لیکن تین بنیادی فرق ہوں گے۔
(1)ہم نے اپنی مرضی، اپنی سوچ اور اپنے وژن کے مطابق کیا دوسروں کو مجبوراً کرنا پڑے گا۔
(2) ہم نے تیاری کے ساتھ اور منصوبہ بندی کے ساتھ کیا جبکہ دوسروں کو الل ٹپ کرنا پڑے گا۔
(3) ہم نے دینی رنگ اور اکابر کی روایت کو غالب رکھا جبکہ دوسروں کے کام میں اس کا برعکس ہوجائے گا-
مولانافیض الرحمن عثمانی نے اپنے وژن کے مطابق ادارہ بنایا صرف بنایا ہی نہیں بلکہ کامیابی کے اوج ثریا تک پہنچایا۔ آپ وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے نتائج اٹھا کر دیکھیے تو آپ کو ادارہ علوم اسلامی کے طلبہ ممتاز نظر آئیں گے اور جب حاصل کردہ نمبروں کا اوسط نکالا جائے تو ادارہ علوم اسلامی صف اول میں دکھائی دے گا اور فیڈرل بورڈ اور عصری اداروں کا گزشتہ ڈیڑھ دو عشروں کا ریکارڈ چیک کیجیے تو دینی مدارس کے طلبہ پہلی پوزیشنیں لیتے اور گولڈ میڈل وصول کرتے نظر آئیں گے-
مولانا فیض الرحمن عثمانی کا سب سے بڑا کمال یہ تھا کہ اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دینے کے باوجود وہ کبھی اجتماعیت کی صفوں میں انتشار اور باہمی اتحاد و یکجہتی کے لیے خطرے کا باعث نہیں بنے تھے۔ آپ نے کبھی ڈیڑھ اینٹ کی الگ مسجد بنانے کا سوچا نہ کبھی سولو فلائٹ کا خیال آیا۔ آپ جانتے تھے کہ موج ہے دریا میں بیرون دریا کچھ نہیں۔ آپ ہمیشہ اکابر اور اجتماعیت سے وابستہ رہے۔ آپ کی مولانا سلیم اللہ خان صاحب سے نیازمندی اور مولانا حنیف جالندھری اور ڈاکٹر عادل خان سے بے تکلفی کو دیکھ کر رشک آتا تھا۔ اسلام آباد راولپنڈی کے علماء کرام کے ساتھ رابطہ اور اجتماعی معاملات میں آپ کی موجودگی کے اہتمام کا یہ عالم تھا کہ علالت اور نقاہت کے باوجود ہر موقع پر موجود ہوتے تھے۔ تشہیر و تصویر کی دنیا کے آدمی نہ تھے۔ نہ اسٹیج پر بیٹھتے نہ نمایاں نشست کی تلاش میں ہوتے تھے۔ بس چپ کر کے ایک سائیڈ پر آ بیٹھتے۔ وقیع رائے دیتے۔ ہر ممکن تعاون کا اعلان کرتے اور آخر عمر تک ان کی یہی ترتیب رہی۔
مولانا فیض الرحمن عثمانی بڑے آدمی تھے اور بہت بڑے تھے۔ میرے جیسے طالب علم کے ساتھ اس قدر شفقت اور عنایت سے پیش آتے کہ ہمیشہ شرمندگی ہوتی۔ اتنے آداب، اتنا اہتمام، اتنی رعایت جو ہم اپنے اکابر کی نہیں کر پاتے۔
مولانا فیض الرحمن عثمانی اپنے اصاغر کو اس سے کہیں زیادہ احترامات سے نوازتے تھے۔ ان کی رحلت کی خبر سنی وٹس ایپ کی ہسٹری میں ان کے پیغامات سنے، پڑھے اور بے ساختہ رو پڑا۔ دیرتک سوچتا رہا آج کے دور میں بھی بھلا فیض الرحمن عثمانی صاحب جیسے لوگ ہوتے ہیں؟
جب سے تعلق بنا ان کا یہ معمول تھا کہ کبھی کوئی مضمون یا تحریر لکھتے تو مشاورت کے بغیر کبھی بھی اشاعت کے لیے نہ بھیجتے۔ میرے جیسا طالب علم ہر گز اس رویے کا مستحق نہ تھا لیکن وہ بڑے تھے اور بڑوں والا انداز تھا۔ اور یہ صرف میرے ساتھ نہ تھا آپ جس جس کی کہانی سنیں گے اس کی یادوں اور اس کے وٹس ایپ کی ہسٹری میں سے ایسا ہی فیض الرحمن عثمانی نکلے گا۔
ایک مرتبہ ایک شخصیت کے بارے میں کہنے لگے کہ فلاں ایسا ایسا ہے۔ عرض کیا بالکل ایسا نہیں آپ کو ان کے بارے میں رپورٹیں پہنچانے اور بریف کرنے والوں نےغلط بریف کیا۔ کچھ دیر حیرت سے مجھے دیکھتے رہے، پھر تسلی سے پوری بات سنی، عرض کیا وہ بہت صفات والا انسان ہے اور اللہ رب العزت نے اسے بہت سی خیروں کا ذریعہ بنا رکھا ہے۔ ان کے سامنے جب اس شخصیت کی وکالت کی تو داد دی اور کہنے لگے دل خوش ہوا، آپ کی قدر میں اضافہ ہوا کہ آپ جسے درست سمجھتے ہیں اس کا کھل کا اظہار کیا ورنہ لوگ جس کے سامنے ہوں اس کی ہاں میں ہاں ملاتے ہیں اور بعد میں چغل خوری کرتے ہیں۔ میں نے عرض کیا حضرت جیسے آج فلاں کی آپ کے سامنے وکالت کر رہا ہوں ایسے بہت سے جگہوں پر آپ کی بھی وکالت کرتا ہوں تو خوش ہو گئے اور پھر کبھی اس معاملے پر کسی قسم کی ناراضگی یا ناپسندیدگی کا اظہار نہیں کیا بلکہ ہمیشہ میری رائے کا احترام کیا۔ اس تعلیمی سال کے آغاز میں جامعہ اشرفیہ لاہور میں وفاق المدارس کا تاریخی اجلاس تھا- رات حسن اتفاق سے برادر گرامی مولانا عثمان آفاق صاحب کے ہاں حضرت کا بھی قیام تھا اور ہم بھی وہیں چلے گئے۔ صبح اجلاس میں جانے کے لیے ایک ساتھ نکلے، راستے میں ہمیشہ کی طرح کئی معاملات پر بہت کھل کر بات کی اور حیرت انگیز امر یہ کہ بعض مسائل میں نہ صرف یہ کہ میری رائے سے اتفاق فرمایا بلکہ صراحۃ کہا کہ آپ کی بات بالکل درست ہے میں فلاں فلاں رائے سے دستبردار ہوتا ہوں۔ وفاق المدارس کے معاملے میں ہمیشہ ہی عجیب خلوص اور محبت کا مظاہرہ فرماتے تھے۔ ان کا حسن ظن تھا کہ جب بھی کبھی وفاق المدارس کے قائدین سے ملاقات مقصود ہوتی یا کوئی پیغام پہنچانا چاہتے تو اس عاجز پر نگاہ عنایت پڑتی تھی۔ بارہا ایسا ہوا کہ پورے اہتمام سے وقت لیا اور صرف مشورے کے لیے محمدی مسجد تشریف لائے۔ اور ہاں یہ معاملہ صرف میرے ساتھ نہ تھا آپ کو کتنے ہی طلبہ ایسے ملیں گے جن کے ساتھ مولانا فیض الرحمن عثمانی یوں ہی بچوں کی طرح بچے بن جایا کرتے تھے۔ انہوں نے دنیا بھر میں مختلف علاقوں اور اداروں میں جو جو بیج بوئے آج ان میں سے اکثر تناور درخت ہیں اور ان کے پھل اور سایے سے خلق خدا مستفید ہورہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اسپتال میں سگی ماں کی اپنے ہی کم سن بچے کو مارنے کی کوشش، نرسز نے بچالیا